حضرت جابر بن عبد اللّٰہؓ کی ساری زندگی اطاعت الٰہی، اتباع رسولؐ، عشق اہل بیتؑ میں گزری
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کا ۱۴۹۲ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد بنی ثعلبہ کا ذکر ملتا ہے۔ بنی ثعلبہ کے چار آدمی بارگاہ رسالت پناہی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم لوگ اپنی قوم کے نہایت غریب اور پسماندہ لوگوں کے بھیجے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی اور اپنی قوم کی طرف سے اسلام قبول کرنے کا اقرار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ثعلبہ والوں کی مہمان داری کرنے کا حکم دیا۔ یہ لوگ چند دن مدینہ منورہ میں مہمان رہے۔ پھر جب واپسی کا ارادہ کیا تو اجازت طلب کرنے کے لئے بارگاہ رسالت پناہی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور رخصت کی اجازت چاہی۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی اور حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ بنی ثعلبہ والوں کودیگر وفود کی طرح انعامات عطا کئے جائے۔ حضرت بلالؓ نے بنی ثعلبہ کے ہر شخص کو پانچ اوقیہ چاندی بارگاہ رسالتؐ کے انعام کے طور پر دئیے۔ بنی ثعلبہ والے اس عنایت خاص پر بے حد خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس ہوگئے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۴۹۲‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ اور ’’اربعین حسینیؑ‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۱۶‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت سید الشہداء امام حسین ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے صحابی رسول مقبولؐ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ دیار حبیب کبریا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم میں کبر سنی میں وفات پانے والے صحابی رسولؐ حضرت جابر بن عبداللّٰہ ؓتھے جن کے اٹھ جانے سے بلاد اسلامیہ میں صحابہؓ کی بابرکت جماعت سے بہت کم بزرگ باقی رہ گئے تھے۔ حضرت جابرؓ نے عمر طویل پائی تھی آپ نے ۹۴ سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ عقبہ ثانیہ میں بہت کم عمر میں اسلام لاے اور زائداز دس سال صحبت رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے مشرف رہے۔رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللّٰہ ؓکو ان کے قبیلہ کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ حضرت جابرؓ کو بدر و احد کے بعد تمام غزوات میں شرکت کی سعادت ملی تھی۔ بیعت الرضوان میں بیعت کا اعزاز ملا۔ حنین اور تبوک کے معرکوں میں نمایاں خدمات انجام دیئے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے قرض کی ادائیگی کے ضمن میں دعاے برکت فرمائی جس کے نتیجہ میں ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھجوریں بھی بچ گئیں۔ جنگ خندق کے موقع پر برکت طعام کا معجزہ انہی کے گھر دعوت کے موقع پر رونما ہوا۔ حضرت جابربن عبداللّٰہ ؓ مدینہ منورہ کے قبیلہ خزرج کے شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے چہیتے صحابی تھے حضرت جابرؓ کو ذات نبوی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ عشق و وارفتگی تھی۔ ساری زندگی اتباع سنت اور اشاعت علوم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ حضرت جابرؓ سے بہ کثرت احادیث مروی ہیں۔ آپ کے شاگردوں کا حلقہ بے حد وسیع تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ کو غزوئہ بدر میں لوگوں کو پانی پلانے کی خدمت ملی تھی۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے جبکہ ان کی دس بہنیں تھیں غزوہ احد میں والد کی شہادت کے بعد بہنوں کی تمام تر ذمہ داری بڑی عمدگی کے ساتھ سنبھالی۔ ان کے اس اخلاقی پہلو کی بناء پر لوگ بہت اکرام و لحاظ کیا کرتے تھے۔ حضرت جابرؓ بن عبداللّٰہ ؓ پر حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص عنایات تھیں متعدد مواقع پر انہیں دربار رسالت سے انعامات سے نوازا گیا۔ حضرت جابرؓ کے دادا اور والد اپنے قبیلہ کے رئیس تھے اور خود وہ مدینہ کے با اثر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔بنو سلمہ کے کئی قلعہ ان کے جد کے تحت تھے بنو حرام میں حضرت جابرؓ کا مکان دینی سرگرمیوں کا مرکز تھا انھیں علم نبوی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا خوب فیض پہنچا تھا ۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت جابرؓ نفاذ شریعت اور حدود کے قائم کرنے اور لوگوں کو اس پر اخلاص کے ساتھ راغب کرنے میں بہت حساس تھے۔ جوش ایمانی کا یہ حال تھا کہ اسلام کے مقابل ہر تعلق اور امتیاز کو نظر انداز فرماتے۔ حق گوئی، راست بازی، صدق و صفا، ایفاے عہد اور مداومت عمل کے لحاظ سے حضرت جابرؓ کا مرتبہ بلندتر تھا ۔ مسلمانوں کی خیرخواہی اور ملی حمیت کا جذبہ انہیں بڑے ایثار اور عظیم قربانیوں پر مائل رکھا کرتا تھا۔ آخر عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ آثار نبویؐ سے خاص لگائو تھا۔ پیروئی سنت کا بڑا التزام تھا۔ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی طوالت عمر کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی۔حضرت جابر ؓ کو اہل بیت اطہار ؑ کے ساتھ والہانہ عشق تھا۔ مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ کے حامیوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت جابر ؓ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے روضہ معلی کے پہلے زائر تھے۔ آپ مدینہ منورہ سے کربلا معلی کا سفر کیا اور روز اربعین کربلا پہنچے ۔ایک روایت کے مطابق آپ ہی اربعین حسینیؑ کے بانی ہے۔ آپ کی عمر شریف ۷۵ یا ۷۶ برس تھی جب آپ کربلا معلی پہنچے۔ آپ کے ساتھ عتیہ بن سعد عوفی ؒ تھے۔ آپ مزار سید الشہداء علیہ السلام پر اتنا روئے کے بے ہوش ہو گئے۔ آپ کے کربلا معلی میں روضہ سید الشہداء ؑ پر حاضری کی سنت اربعین کے موقعہ پر آج تک جاری ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۴۹۲‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔