رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ جو میری زیارت کے لئے مدینہ آئے گا ،روز قیامت وہ میرے پڑوس میں ہوگا‘‘ ۔

 اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کا ’’۱۵۰۱‘‘واں تاریخ اسلام اجلاس – پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

     حیدرآباد ۔۲۷؍نومبر۔بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد خولان کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ وفد ۱۰ھ میں حاضر ہوا تھا اور  دس افراد پرمشتمل تھا۔ان لوگوں نے عرض کیا کہ ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ہم لوگ اللہ پر ایمان رکھنے والے، اس کے رسول کی تصدیق کرنے والے اور اپنی قوم کے پیچھے رہ جانے والوں کے قائم مقام ہیں۔ ہم نے آپ کی جانب اونٹوں کو تھکا کر سفر کیا ہے، آپ کی زیارت کی خاطر ہم نے نرم و سخت راہیں طے کی ہیں ، ہم پر اللہ کا انعام اور اس کے رسول کا احسان ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تمہارا یہ کہنا ہے کہ تم نے نرم و سخت راہیں طے کی ہیں۔تو جان لو کہ تمہارے اونٹوں نے اس راہ میں جو بھی قدم اٹھایا ہے ہر قدم کے بدلے تمہارے لئے ایک نیکی اور ایک درجہ مقرر ہے اور تمہارا یہ کہنا کہ تم میری زیارت کی خاطر آئے ہو تو جان لو کہ جو میری زیارت کے لئے مدینہ آئے گا تو روز قیامت وہ میرے پڑوس میں ہوگا‘‘۔یہ لوگ رملہ بنت حارثؓ کے مکان میں ٹھہرائے گئے۔ اہل وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دین اسلام کے متعلق چند باتیں دریافت کیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ انھیں قرآن و حدیث کی تعلیم دیں۔ چند روز بعد جب یہ لوگ رخصت ہونے کے لئے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں انعام و اکرام سے نواز کر رخصت فرمایا۔ وفد والوں کو ظلم سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ’’ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے‘‘۔ یہ لوگ اپنی قوم میں واپس گئے اور اپنے اوپر ان تمام چیزوں کو حرام کر لیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر حرام کر دی تھیں اور ان چیزوں کو حلال کر لیا جو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لئے حلال کر دی تھیں۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۲۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت النبی ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۰۰:۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت سہلؓ بن بیضاء کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ  حضرت سہل بن بیضاءؓ  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں قریش کی جانب سے بنو ہاشم کے مقاطعہ کے واقعہ نے رنجیدہ خاطرکر دیا تھا۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عداوت کی بناء پر آپ کے خاندان عالیہ بنو ہاشم کے مقاطعہ کا اعلان کیا تھا اور یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہا۔حضرت سہلؓ دل سے چاہتے تھے کہ قریش کے اس ظلم و ستم کو بہ عجلت ممکنہ روکا جاے۔ چنانچہ سہلؓ بن بیضاء ان لوگوں کے ساتھ ہو گئے جو معتدل مزاج اور طالبان خیر تھے اوریہ سب حضرات مل کر اس مقاطعہ کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ حضرت سہلؓ کے والد کا نام وہب بن ربیعہ تھا۔ بیضاء دراصل ان کی والدہ تھیں سہل اور ان کے بھائی سہیلؓ اور صفوانؓ سب اپنی والدہ کے نام سے مشہور تھے۔ بیضاء ، جحدم بن امیہ کی دختر تھیں۔ حضرت سہلؓ بن بیضاء کے مزاج میں حق طلبی، انصاف، راست بازی، نرمی اور تواضع تھی یہی وجہ ہے کہ دعوت حق کے اولین دور ہی میں آپ اسلام کی طرف مائل ہو گئے تھے تاہم مشرکین مکہ کے مظالم اور استبداد کے سبب انھوں نے فوراً اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا البتہ پوشیدہ طور پر وہ تعمیل احکام کیا کرتے تھے۔ ان کے ایمان کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ جب سارے اہل قریش دین حق کی مخالفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخاصمت پر آمادہ اور سرگرم تھے حضرت سہلؓ نے حق پسندی کے جذبہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنی وابستگی اور محبت کا خاص ڈھنگ سے مظاہرہ کیا۔حضرت سہلؓ بن بیضاء کے قبول اسلام سے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود بخوبی واقف تھے ۔ حضرت سہلؓ  کو چند اسباب و وجوہ نے معرکہ بدر میں قریش کے ساتھ آنے پر مجبور کیا تھا لیکن وہ یہاں اسیر ہو گئے۔ جب بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں پیش کئے گئے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ  کی اس شہادت پر کہ سہلؓ اسلام لا چکے تھے مگر کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اس کا اعلان نہ کر سکے تھے، انھیں رہا کر دیا گیا۔ اپنی رہائی کے بعد سہلؓ بن بیضاء نے مکہ مکرمہ مراجعت نہیں کی بلکہ مستقلاً دربار حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سکونت کا فیصلہ کر لیا اور تادم زیست مدینہ منورہ ہی میں قیام پذیر رہے۔ رات دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف ملتا رہا جسے وہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مانتے تھے۔ حضرت سہل  ؓ کو اکثر غزوات میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔دین حق کی خدمت کے لئے ہر وقت آمادہ رہا کرتے تھے۔اطاعت احکام الٰہی میں بڑے مستعد رہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمانبرداری اور پیروی سنت کو اعزاز حیات جانتے تھے۔ حضرت بیضاءؓ  کی وفات کے متعلق ارباب سیر کے مختلف اقوال ہیں بعض کا کہنا ہے کہ عہد رسالت  پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی میں انھوں نے وفات پائی جبکہ دوسرا قول رحلت شریف کے بعد وفات پانے کا ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۱‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔