حضرت عثمان بن مظعونؓ سابقون الاولون میں شامل۔ مہاجرین میں مدینہ منورہ میں سب سے پہلے وفات و تدفین

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۰۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔یکم؍جنوری(پریس نوٹ) بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد بھراء کا ذکر ملتا ہے۔ یہ وفد ۹ھ میں حاضر ہوا اور ’۱۳‘ افراد پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ بنو قضاعہ سے تھے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر یہ لوگ حضرت مقداد بن عمروؓ کے مکان کے سامنے آکر اونٹ بٹھائے۔ حضرت مقدادؓ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ وفد والوں کے لئے کچھ کھانا تیار کرو اور خود ان کے پاس گئے اور خوش آمدید کہا اورا نھیں اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ ان کے سامنے ’’حیش‘‘ رکھا گیا۔ ’’حیش‘‘ ایک کھانا ہوتا ہے جو کھجور اور ستو ملا کر گھی سے تیار کیا جاتا ہے۔ حضرت مقدادؓ نے اس کھانے کو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھا کر وہ برتن واپس فرما دئیے۔ اب حضرت مقدادؓ دونوں وقت وہی پیالہ ان مہمانوں کے سامنے رکھ دیتے ۔ وہ مزے لے کر خوب کھایا کرتے مگر کھانا کم نہ ہوتا ۔ ان لوگوں کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ آخر ایک روز اپنے میزبان سے پوچھا کہ’’مقداد! ہم نے تو سنا تھا کہ مدینہ والوں کی غذا خوراک ستو اور جو وغیرہ ہے۔ تم تو ہمیں ہر وقت وہ کھانا کھلاتے ہو جو ہمارے یہاں بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے اور جو ہر روز ہم کو میسر بھی نہیں آسکتا اور پھر ایسا لذیذ کہ ہم نے کبھی ایسا کھانا نہ کھایا‘‘۔ حضرت مقدادؓ نے ان لو گوں کو جواب دیا کہ ’’ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی برکت ہے کیوں کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انگشت مبارک لگ چکے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی سب نے بالاتفاق کلمہ شہادت پڑھا اور اپنے ایمان کو تازہ کیا اور کہا کہ ’’بے شک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں‘‘۔ یہ لوگ کچھ دن مدینہ میں ٹھہرے اور قرآن و احکام سیکھے اوراپنے وطن واپس ہوئے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت النبی ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ  ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ  حضرت عثمان بن مظعونؓ سابقون الاولون میں شامل تھے اور آپ کو چودھویں(۱۴) مسلمان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ کا تعلق جمح بن عمرو کے خاندان سے تھا اس وجہ سے جمحی کہلاتے تھے۔ ان کی کنیت ابو سائب تھی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ میں قبول حق کا جوہر نمایاں تھا یہی وجہ ہے کہ جب ان کے سامنے دین حق کی بات آئی تو انھوں نے اسے فوراً قبول کر لیا ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد کفار قریش اور ان کے قبیلہ کے لوگوں کی شدید ترین عداوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن کوئی طاقت و قوت ذرہ برابر ان کے عزم و استقلال میں خلل نہ ڈال سکی۔ حفاظت ایمان و دین کی خاطر انھوں نے اپنے فرزند سائب بن عثمانؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ حبشہ کی طرف مسلمانوں کی پہلی ہجرت تھی۔ قیام حبشہ کے دوران جب یہ غلط خبر ملی کہ سارے مکہ والے ایمان لا چکے ہیں تو دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ بھی وہاں سے چل پڑے۔ جب مکہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ اطلاع صحیح نہ تھی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ولید بن مغیرہ نے امان دی اور وہ مکہ میں داخل ہوئے۔ولید بن مغیرہ کی امان کے بعد چین سے بسر ہونے کے حالات پیدا ہو گئے تھے لیکن ان کے جذبہ ایمان اور عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے گوارا نہ کیا کیوں کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ سارے مسلمان اللہ کی راہ میں تکلیف اٹھا رہے ہیں اور قریش کے مظالم سہہ رہے ہیں تو سوچا کہ میں کس طرح آرام و چین سے رہ سکتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عثمان بن مظعونؓ نے ولید بن مغیرہ کی امان سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا اور کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی امان کافی ہے۔ ولید کی پناہ سے نکل آنے کے باعث قریش کے مظالم ان پر ازسر نو شروع ہو گئے۔ آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور غزوہ بدر میں شرکت کا اعزاز پایا۔ آپ رات رات بھر مصروف عبادت رہتے اور دن میںروزے رکھتے۔ مجاہدات اور تزکیہ نفس میں بہت مصروف رہا کرتے تھے۔ اگر چہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ترک دنیا کی اجازت مانگی تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے منع کر دیا۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے پہلے ہی سے شراب سے اجتناب کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ شراب سے عقل جاتی رہتی ہے اور مجھ سے کم درجہ کے لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ مہاجرین میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے مدینہ منورہ میں وفات پائی اور بقیع میں دفن ہونے والے مہاجرین میں اول تھے۔ ان کی وفات پر لوگوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چشمان مبارک اشکبار ہو گئیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ ’’تم دنیا سے اس طرح رخصت ہوئے کہ تمہارا دامن ذرہ برابر اس سے آلودہ نہ ہونے پایا‘‘۔ جب فرزند رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’سلف صالح عثمان بن مظعون سے جا کر مل جائو‘‘۔ حضرت ام علاءؓ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کے لئے ایک نہر جاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خواب بیان کیا تو ارشاد فرمایا کہ ’’یہ عثمان بن مظعون کے نیک اعمال کا ثمرہ ہے‘‘۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۶‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔