رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت یاسرؓ اور ان کے گھرانے ؓ کو جنت کی بشارت دی۔حضرت یاسرؓ اور آپ کی اہلیہ اسلام کے اولین شہداء

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۰۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

  حیدرآباد ۔۲۵؍ڈسمبر(پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد بنی سعد ہذیم کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ لوگ جب مسجد نبوی شریف میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک جنازہ کی نماز پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے آپس میں طے کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پیشتر ہم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہئیے اس لئے وہ سب ایک طرف ہو کر الگ بیٹھے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز جنازہ سے فارغ ہو کر ان کی طرف توجہ فرمائی اور انھیں بلا کر دریافت فرمایا کہ ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘ تو انھوں نے عرض کیا ’’ہاں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم اپنے بھائی کے لئے دعاء میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟‘‘ وفد والوں نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سمجھتے تھے کہ بیعت سے پہلے ہم کوئی بھی کام کرنے کے مجاز نہیں‘‘۔ ارساد فرمایا ’’ جس وقت تم نے اسلام قبول کیا اسی وقت سے تم مسلمان ہو گئے‘‘۔ اتنے میں وہ شخص بھی آپہنچا جسے یہ لوگ اپنے سواریوں کے پاس بٹھایا تھا۔ وفد والوں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ ہم سے چھوٹا ہے اور اس لئے ہمارا خادم ہے‘‘۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ہاں! چھوٹا اپنے بزرگوں کا خادم ہوتا ہے۔ اللہ اسے برکت دے‘‘۔ اس دعاء کی یہ برکت ہوئی کہ وہی بچہ بعد میں اپنی قوم کا امام اور ان میں قرآن مجید کا سب سے اچھا جاننے والا ہو گیا۔ وفد والے تین دن تک مہمان رہے اور جب واپس ہونے کے لئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اپنے میں سے کسی کو امیر بنا لو۔‘‘ حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ انھیں چند اوقہ چاندی بطور انعام دیں۔ وفدوالے جب اپنی قوم میں واپس ہوئے تو قوم کے دیگر لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۵‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۲۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت النبی ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت یاسر بن عامر ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ  حضرت یاسر بن عامرؓ  قحطانی النسل تھے اور یمن کے باشندے تھے۔ حضرت یاسر ؓ کی کنیت ابو عامر تھی۔حضرت یاسرؓ اپنے دو بھائیوں مالک اور حارث کے ساتھ اپنے ایک اور بھائی کی تلاش میں مکہ مکرمہ آئے تھے۔ بھائی نہ ملنے پر مالک اور حارث اپنے وطن واپس چلے گئے لیکن حضرت یاسر نے مکہ مکرمہ میں مستقل قیام کو پسند کیا۔ حضرت یاسرؓ نے مکہ کے ایک رئیس ابو حذیفہ بن مغیرہ سے حلیفانہ تعلق قائم کر لئے۔ ابو حذیفہ نے اپنی ایک غلام حضرت سمیہؓ سے حضرت یاسرؓ کی شادی کردی۔ انہیں کے بطن سے مشہور صحابی حضرت عمار بن یاسرؓ  تولد ہوئے۔ حضرت یاسر ؓ کو یہ خصوصی اعزاز حاصل تھا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ان کا پورا گھرانہ ایک ساتھ مشرف بہ ایمان ہوا اور  سابقون الاولون میں شامل ہو گیا۔ حضرت یاسرؓ اور آپ کے افراد خاندان قریش کے ظلم و استبداد کا نشانہ بننے کے باوجود جادہ ایمان پر کمال استقلال سے قائم رہے۔قریش نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ مکہ میں ان کا کوئی قبیلہ یا کنبہ نہ تھا جو ان کی حمایت یا مدد کرتا اس لئے کفار ان پر زیادتی کرنے میں جری تھے۔حضرت یاسرؓ اور آپ کے گھر والوں کو دوپہر کے وقت تپتی ریت پر لٹا کر مار پیٹ کی جاتی تھی کبھی پانی میں غوطے دے کر ستایا جاتا یا کبھی انگاروں پر لٹا کر جھلسایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر حضرت یاسرؓ، حضرت سمیہؓ اور حضرت عمارؓ کی طرف ہوا ۔ وہ  لوگ مکہ کے مقام رمضہ میں مارے پیٹے جارہے تھے حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔’’ اے آل یاسر! صبر کرو، تمہارے آرام کی جگہ جنت ہے۔‘‘بنو مخزوم کے ساتھ ابو جہل نے بھی ان نفوس قدسی کو اذیتیں پہنچانے میں شامل تھا۔حضرت یاسر ؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سمیہؓ  ابوجہل کی بربریت کے باعث شہید ہوگئی تھیں۔ حضرت یاسربن عامرؓ  بھی ان وحشیانہ اذیتوں کی تاب نہ لا سکے اور کچھ دنو ں کے بعد وہ بھی شہید ہو گئے۔ حضرت سمیہؓ اور حضرت یاسرؓ اسلام کے اولین شہداء ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۵‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔