حضرت مرثد بن ابی مرثد غنویؓ کو سبقت اسلام،ہجرت، بدر و احد میں شرکت اور واقعہ رجیع میں شہادت کا اعزاز
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۰۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۸؍ڈسمبر(پریس نوٹ) بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر خدمت ہونے والے وفود میں وفد دوس کا ذکر ملتا ہے۔ اس وفد کے امیر حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ تھے۔ انھوں نے بہت پہلے اسلام قبول کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! دعا فرمائیے کہ میری قوم بھی مسلمان ہو جائے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ! طفیل کو ایک آیت (نشان) بنا دے‘‘۔ چنانچہ جب حضرت طفیل بن عمروؓ اپنے قبیلہ میں واپس پہنچے تو سب سے پہلے اپنے والد اور اہلیہ کو اسلام کی دعوت دی اور انھوں نے اسے قبول کیا اور مسلمان ہو گئے۔ جب انھوں نے اپنی قوم کو دعوت اسلام دی تو جنھیں توفیق الٰہی ہوئی وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور کچھ لوگ محروم رہے۔ حضرت طفیلؓ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ذکر کیا کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! وہ برائیاں جن سے اسلام روکتا ہے ، میری قوم کے کچھ لوگوں میں موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ قبول اسلام سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، آپ دعا فرائیے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لئے دعا فرمائی اور حضرت طفیلؓ سے ارشاد فرمایا کہ ’’لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلائو، ان سے محبت کرو اور ان سے نرمی کا برتائو کرو‘‘۔ جب حضرت طفیلؓ نے اس ہدایت پر عمل کیا تو انھیں بے حد کامیابی ملی اور قبیلہ دوس کے ستّر یا اسّی خاندانوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت طفیلؓ نے ان سبھوں کو اپنے ساتھ لے کر بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیبر تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ اہل وفد خیبر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیدار سے مشرف ہوئے اور قدم بوسی کا شرف پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غنیمت خیبر میں سے وفد دوس کے لئے بھی حصہ رکھا اور ان لوگوں کومال غنیمت سے عطا فرمایا۔ خیبر سے یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ واپس آئے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۲۸‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت النبی ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت مرثد بن ابی مرثدؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت مرثد بن ابی مرثدغنویؓ سابقون الاولون میں شامل تھے۔ حضرت مرثدؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے سفر ہجرت اپنے والد ابی مرثدؓ کے ساتھ کیا ۔ حضرت مرثدؓ کے والد ابی مرثد کا نام کناز تھا۔ وہ سعد بن قیس غیلان کی اولاد سے تھے۔ حضرت ابی مرثد کنازؓ حضرت حمزہؓ کے قریبی دوست تھے۔حضرت مرـثدؓ کا مہاجر صحابہ میں بھی ممتاز مرتبہ تھا۔ ہجرت کے بعد جب مواخاۃ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت مرثدؓ کی مواخاۃ کے لئے حضرت اوس بن صامتؓ کا انتخاب فرمایا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت کلثوم بن الہدمؓ یا بروایت دیگرحضرت سعد بن خثیمہؓ کے ہاں قیام پذیر ہوے تھے۔ حضرت مرثد بن ابی مرثدؓ نہایت قوی، مضبوط، طاقت ور، جری اور بہادر تھے۔ غزوہ بدر میں نہایت جوش و خروش سے حصہ لیا اور اپنے کمال فن حرب، بہادری، استقامت اور جذبہ حق کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ بعض علماے سیر و مغازی ان کے غزوہ احد میں بھی شریک رہنے کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ان کی غیر معمولی طاقت او ر دلیری اہل اسلام کے بڑے کام آئی۔ چنانچہ ان کے ذمہ ایک نہایت اہم کام تھا وہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو رہا کر کے مدینہ منورہ لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ مشرکین نے ان کا تعاقب کیا تھا لیکن انھوں نے نہایت ہوش مندی اور حکمت سے کام لیا مشرکین کے ہاتھ نہ لگے بل کہ بحفاظت مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ حضرت مرثدؓ ان خوش نصیب مقربین میں سے تھے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص توجہ تھی اور یہ خود بھی دل و جان سے آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فدا تھے۔ حضورانور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ان کی زندگی کا سرمایہ اور اتباع فرامین مقصد حیات تھا۔ حضرت مرثدؓ جس طرح جسمانی طاقت و قوت، بہادری اور شجاعت میں منفرد تھے اسی طرح علم و فضل میں بھی بلند پایہ رکھتے تھے انھیں لوگوں کی مذہبی تعلیم پر مقرر فرمایا گیا تھا۔ چنانچہ بنو عضل و قارہ کے لوگوں کی درخواست پر حضرت مرثد ؓ کو معلمین کی اس جماعت کا امیر بنا کر بھیجا گیا جسے بنی ہذیل نے مقام رجیع پر اپنے ہلاکت خیز ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا۔ایک روایت کے بموجب اس جماعت کے امیر حضرت عاصم بن ثابتؓ تھے۔رجیع میں حضرت مرثدؓ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہایت استقامت کے ساتھ دشمنوں کا سامنا اور بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مرتبہ شہادت سے سرفراز کیا۔ حضرت مرثدبن ابی مرثدؓ ایمان، احکام شریعت کے نفاذ، اشاعت دین، مسلمانوں کی خیر خواہی اور فروغ اسلام کے ضمن میں بڑے پر جوش اور راسخ العقیدہ تھے۔ اپنے شخصی کردار اور اعلیٰ اخلاق کی بناء پر معاصرین میں بڑے محترم تھے اسلام لانے کے بعد سے اپنی شہادت تک انھوں نے پاکیزہ فکر و عمل کا ایک اعلی نمونہ چھوڑا زندگی بھراخلاق و کردار کی حفاظت کرتے رہے برائی کی طرف کبھی رخ نہ کیا ۔حضرت مرثدؓ نے علوم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خوب استفادہ کیا وہ بڑے فضل و کمال والے تھے۔ کتب حدیث میں آپ کی مرویات موجود ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۴‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔