حضرت عبید اللہ بن عباسؓ کی سخاوت ضرب المثل تھی۔ یمن کے گورنر اورامیر حج بننے کے اعزازات
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۰۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۱؍ڈسمبر(پریس نوٹ) بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر خدمت ہونے والے وفود میں وفد ازد کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ وفد سات افراد پر مشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی وضع قطع کو پسندیدگی کی نظر سے ملاحظہ فرمایا اور ان سے ارشاد فرمایا کہ ’’ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتائو تمہارے قول کی کیا حقیقت ہے؟‘‘۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ’’ہم پندرہ خصلتیں رکھتے ہیں۔ پانچ وہ ہیں جن پر اعتقاد رکھنے کا اور پانچ وہ ہیں جن پر عمل کرنے کا آپ کے بھیجے ہوئے اصحاب نے حکم دیا ہے۔ پانچ وہ ہیں جن پر ہم پہلے سے پابند ہیں۔ پانچ باتیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبلغین نے ایمان لانے کو بتایا یہ ہیں ۔ اللہ پر ایمان اور فرشتوں ، اللہ کی کتابوں ، اللہ کے رسولوں پر اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر۔پانچ باتیں جن پر عمل کرنے کا حکم ملا تھا وہ یہ ہیں۔ توحید و رسالت کی شہادت دینا، پانچ وقت کی نماز یں قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت الحرام کا حج کرنا جسے راہ کی استطاعت ہو۔ پانچ باتیں جو پہلے سے ہم کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔ آسودگی کے وقت شکر کرنا، مصیبت کے وقت صبر کرنا، قضائے الٰہی پر رضا مند ہونا، امتحان کے مقامات میں راست بازی پر قائم رہنا اور اعداء کو شماتت نہ دینا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جنھوں نے ان (پانچ) باتوں کی تعلیم دی وہ حکیم و عالم تھے اور ان کی دانش مندی سے معلوم ہوتا ہے گویا وہ انبیاء تھے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں اور پانچ چیزیں بتا دیں تا کہ پوری بیس خصلتیں ہو جائیں ۔ وہ چیزیں جمع نہ کرو جنھیں کھانا نہ ہو، وہ مکان نہ بنائو جس میں بسنا نہ ہو، ایسی باتوں میں مقابلہ نہ کرو جنھیں کل کو چھوڑ دینا ہو، اللہ کا تقویٰ رکھو جس کی طرف لوٹ کر جانا اور جس کے حضور پیش ہونا ہے اور ان چیزوں کی رغبت رکھو جو آخرت میں تمہارے کام آئیں گی جہاں تم ہمیشہ رہو گے‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۲۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت النبی ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۰۰:۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت عبید اللہ بن عباسؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت عبید اللہؓ خاندان رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رکن رکین تھے حضرت عباس بن عبد المطلب بن ہاشم ؓوالد گرامی تھے ۔ حضرت لبابہ کبریٰ ام الفضلؓ بنت حارث والدہ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بھائی تھے۔ حضرت عبید اللہؓ بڑے متقی، پرہیزگار، اعلی صفات کے حامل بزرگ اور نہایت سخی تھے ان کی سخاوت ضرب المثل تھی۔ ایک سفر میں انہوں نے اپنے غلام کے ساتھ ایک اعرابی کے مکان میں قیا م کیا جس کے پاس کچھ نہ تھا صرف ایک بکری تھی جس کے دودھ پر اس اعرابی کی لڑکی کا گزارہ تھا لیکن اس نے حضرت عبید اللہؓ کی مہمانداری کے لئے اس بکری کو ذبح کر کے اس کا گوشت بھون کر پیش کر دیا۔ حالاں کہ اس کی بیوی نے منع کیا تھا لیکن اعرابی نے حق میزبانی پورا کیا۔ حضرت عبید اللہؓ نے پانچ سو اشرفیاں اسے عنایت فرمادیں اور یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنے مال کا ایک حصہ دیا ہے جب کہ اعرابی نے بکری کی صورت میں اپنا کل اثاثہ تواضع میں خرچ دیا تھا۔ اس سے حضرت عبید اللہؓ کی داد و دہش کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ بہ مشکل پانچ درہم کی بکری کے عوض پانچ سو اشرفیاں عطا فرما دیں۔ حضرت عبید اللہؓ جب اپنے بڑے بھائی حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے ساتھ مدینہ منورہ جایا کرتے تو تمام اہل مدینہ اعتراف کرتے کہ ہم سب سے عبد اللہؓ کا علم اور عبید اللہؓ کی سخاوت زیادہ ہے۔ حضرت عبید اللہؓ بہ عہد خلافت امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ یمن کے گورنر تھے اور انھیں ۳۶ھ اور ۳۷ھ میں امیر حج بنایا گیا تھا چنانچہ مسلسل ۲ سال آپ نے لوگوں کو حج کرایا۔ حضرت عبید اللہؓ پہلے پہل روزانہ ایک اونٹ کی قربانی کرتے تھے بعد میں ہر دن دو اونٹ ذبح کرنے لگے تھے مخلوق خدا کو کھانا کھلانا اور راحت رسانی کے لئے اپنا مال خرچ کرنا انہیں بڑا محبوب تھا۔ حضرت عبید اللہؓ کی کنیت ابو محمد تھی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جمال پاک کے بار بار دیدار، ارشادات اقدس کی سماعت اور صحبت مبارک سے فیضیاب ہونے کا شرف پایا۔ کئی احادیث شریف ازبر تھیں۔پہلے اپنے ایک بھائی حضرت قثم بن عباسؓ کے ساتھ رہتے تھے۔ حضرت علی المرتضیؓ کی شہادت تک یمن پر مسلسل حاکم رہے۔ یہیں پر ان کے دو بیٹے شہید کر دئے گئے تھے۔ حضرت عبید اللہؓ اعلیٰ اخلاق کے حامل اور ان تمام خوبیوں سے متصف تھے جو قیامت تک ایک مومن کامل کی پہچان ہیں۔ بڑے عبادت گزار، نیک دل، ہمدرد، بامروت، شجیع، حوصلہ مند، سخی اور صبر و شکر کا پیکر تھے۔ حسن ظاہری سے بھی مالا مال تھے۔ دراز قد، خوبصورت اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔عشق الٰہی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہمیشہ سرشار، اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کامل نمونہ تھے۔ حضرت عبید اللہؓ نے طویل عمر پائی سنہ وفات ۵۸ھ مشہور ہے۔ مدینہ منورہ میں مدفون ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یمن میں وفات پائی لیکن پہلا قول ہی راجح ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۳‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔