حضرت سلطان الہند خواجہ خواجگان غریب نوازؒ کی حیات مبارکہ عشق مولیٰ تعالیٰ، اطاعت حبیب کبریاؐ، اشاعت دین اور خدمت خلق سے عبارت تھی
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۱۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۹؍جنوری(پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد رفرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کر تا ہے تو سید الملائکہ جبرئیل سے ارشاد فرماتا ہے کہ میں محبت کر تا ہوں اپنے فلاں بندے سے تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر جبرئیلؑ محبت کر تے ہیں اس سے اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت کر تا ہے فلاں بندئے خاص سے تم بھی محبت کرو اس سے۔ پھر آسمان والے فرشتے اس سے محبت کر تے ہیں ۔بعد اس کے زمین والوں کے دلوں میں وہ مقبول ہو جا تا ہے۔ خاصان خدا کا محبوب خلائق ہو نا اسی بات کی دلیل ہے۔ آٹھ صدیوں سے یہ حقیقت اہل نظر کے سامنے ہے کہ حضرت خواجہ خواجگاں ملک المشائخ سلطان الہند سید معین الدین حسن سجز ی چشتیؒ بندگان خدا کی محبتوں کا مرجع بنے ہوئے ہیں جو بلاشبہ آپ کی رفعت شان، تقرب الہٰی اور محبوبیت حق پر دال ہے۔ آپ کے والد محترم کا اسم مبارک سید غیاث الدین حسن تھا۔ سلسلہ نسب پدری حضرت سید نا امام حسینؑ تک پندرہ واسطوں سے جاملتا ہے۔ ایک صاحب دل بزرگ حضرت ابراہیم قندوزیؒ نے اپنے فیض و اثر سے حضرت خواجہ معین الدین حسنؒ کے قلب کو محبت حق کے اجالوں سے ایسا روشن کر دیا کہ دنیا اور دنیاداری سے دل اچاٹ ہو گیا۔ سب کچھ چھوڑ دیا اور طلب حق میں بہ صد ہزار اشتیاق نکل پڑے۔ اس دوران قرآن پاک حفظ کیا اور علوم دین کے تحصیل میں مشغول ہو گئے۔ جید علماء کرام سے معانی و معارف ، حقائق و اسرار کلام پاک کا درس لیا۔ حدیث شریف ، تفسیر، فقہ وغیرہ علوم متداولہ کے حصول کے لئے سخت محنت و مشقت کی۔بعدہٗ حضرت خواجہ بزرگؒ نے علوم باطنی کے حصول کے لئیحضرت شیخ الشیوخ خواجہ عثمان ہارونی ؒ کی خدمت عالیہ میں نہایت ادب و احترام سے حاضر ہوئے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒنے خواجہ بزرگؒ کو بیعت سے مشرف فرما یااور ان کا ہاتھ پکڑ کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا ’’ مولیٰ! یہ معین الدین ہے، اسے قبول فرما‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۱۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں احوال صالحین کے ضمن میں حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی ؒ کے حالات مبارکہ پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت خواجہ عثمانؒ ہارونی نے ترک دنیا،ترک عقبی (سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کچھ مطلوب نہ ہو نا)، ترک خواب وخور (صرف اتنا ہی سونا اور کھانا کہ حیات کی ضرورت پوری ہو) اور ترک خواہش کے پیمان کے عوض چہار ترکی کلاہ سے مفتخر کیا۔حضرت خواجہ بزرگؒ نے شرف بیعت کے بعد سے بیس سال پیرو مرشد کی خدمت میں گزارے آپ سفر و حضر ہر وقت خدمت شیخ میں منہمک رہا کر تے اورپیر کی صحبت با برکت سے خوب فیض اٹھایا۔حرمین شریفین میں پیر و مرشدؒ نے ان کے لئے خاص الخاص دعائیں کیں جن کی قبولیت کی نوید عطا ہوئی۔مزید یہ کہ دربار رسالت پناہیؐ سے حکم ہوا کہ ہندوستان جاکر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیں۔رسول اللہ ؐکے ارشاد مبارکہ کی تعمیل میں آپ نے مرشدؒ سے اجازت لی اور ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا۔ آپ کی حیات مبارکہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوںگمراہ لوگ مشرف بہ اسلام ہوے۔اگر چہ کہ ابتداء میں حکام نے ممکنہ مزاحمت کی اور تکلیفیں پہنچائیں‘ لیکن آپ کے عزم و استقلال اور تصرفات روحانی کے آگے سب بے بس ہوگئے۔حضرت غریب نوازؒ کی پرکشش روحانی شخصیت ، اعلیٰ اخلاق،عمدہ خصائل، محبت، رحم و مروت اور ہمدردی و ایثار جیسے اوصاف اور ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک اور مشفقانہ برتائو یعنی رسول اللہؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرائی کا ایسا اثر پڑا کہ لوگ جوق در جوق آپ کی طرف کھنچے چلے آتے۔ آپ کے فیوض روحانی اور برکات و جود کے باعث اجمیر ہی نہیں اطراف و اکناف میں تیزی کے ساتھ دین حق اسلام کے اجالے پھیلنے لگے۔حضرت خواجہ بزرگ ؒنے اقتدار و حکومت‘ جاہ و حشمت ‘ زر و جواہر‘ مال و دولت یا طاقت و قوت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ محض اسلام کے پیغام حق و صداقت،سرکار دو عالم ؐ کی سیرت طیبہ ،تعلیمات اقدس کی تابعداری کے تابناک نمونے، انسانیت، محبت، رحم و مروت،شفقت و مہربانی، مخلوق کی راحت رسانی ، قول و فعل کی یکسانی و نیز اخلاص عمل کے ذریعہ تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کا فریضہ انجا م دیا اور اس کے فوری ‘ مثبت اور دیر پا نتائج برآمد ہوئے اور ان کے اثرات دائماً قائم رہیں گے۔لگ بھگ چار دہوں کی ان مبارک و مسعود مشغولیات کے بعدحضرت خواجہ بزرگؒ نے بہ عمر ۹۷ سال ۶؍ رجب المرجب کواس دار فانی سے کوچ کیا اوروصال حق فرما یا۔آپ کے تین صاحبزادگان اورایک صاحبزادی تھیں۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ خوف و خشیت الہٰی سے حضرت خواجہ بزرگؒ ہمیشہ لرزاں رہا کر تے تھے،ہر وقت رضائے الہٰی کا خیال لگا رہتا ، ساری زندگی عشق مولیٰ تعالیٰ اور اطاعت حبیب کبریاؐ سے معانون رہی۔ تلاوت کلام پاک سے خاص شغف تھا۔کتاب و سنت کی پیروی پر استقامت آپ کے راسخ العقیدہ ، مومن صادق اور مرد کامل ہو نے پر دال ہے۔آپ کی سادگی بڑی متاثر کن تھی، لیکن جب مخلوق خدا کی خدمت، دلدہی، راحت رسانی اور غربا پروری کی بات ہو تی تو آپ کی سخاوت و فیاضی پورے جوش پر ہوتی۔ ہرروز لنگر خانہ میں سینکڑوں لوگ عمدہ کھانوں سے شکم سیر ہوا کر تے۔ حضرت خواجہ بزرگ کو سماع سے خاص لگاو تھا۔حضرت غریب نوازؒکے کلام اور ملفوظات کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے یکجا کر دیا۔شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اخبار الاخیار میں منتخب ملفوظات کو بہت موثر انداز سے رقم فرما یا ہے۔ حضرت خواجہ صاحب نے فرما یا کہ ’’جس شخص میں تین باتیں ہوں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے۔ اول سمندروں جیسی سخاوت‘ دوم آفتاب جیسی شفقت اور سوم زمین جیسی تواضع‘‘۔فرما یا ’’ مرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائے گا جب کہ اس کی بائیں طرف والے فرشتہ نے بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھا ہو‘‘۔فرمایا’’ محبت کی علامت یہ ہے کہ فرماں بردار رہتے ہوئے اس بات سے ڈرتے رہو کہ محبوب تمھیں دوستی سے جدانہ کردے‘‘۔ فرما یا ’’تمہارا کوئی گناہ اتنا نقصان نہیں پہنچائے گا جتنا کسی مسلمان کی بے عزتی کرنے سے پہنچے گا‘‘۔ فرما یا’’ عارف وہ ہے جو اپنے دل سے غیر اللہ کو نکال باہر کرے‘‘۔ فرما یا ’’بد بختی کی علامت یہ ہے کہ گناہ کر تا رہے پھر بھی مقبول بارگاہ ہو نے کا امیدوار ہو اور عارف کی علامت یہ ہے کہ خاموش اور غمگین رہے گا‘‘۔ ہر دور میں بلا لحاظ مذہب و ملت راعی و رعایا، خاص و عام، عالم و عامی، حاکم و محکوم اپنے اور بیگانوں نے حضرت خواجہ بزرگؒ سے اظہار عقیدت و محبت اور آپ کے آستانہ عالیہ پر حاضری دینے کو سعادت سمجھا اور اولیاء اللہ کی محبت، قرب اور صحبت در اصل اللہ کی یاد دلاتی ہے اس بات کا ہر ایک نے اعتراف کیا۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۱۰‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ جناب محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔