نجران کے معاہدہ نے اسلامی رواداری کے پہلوئوں کو منور کیا۔
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۰۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۲؍جنوری(پریس نوٹ) آیت مباہلہ کے نزول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام، حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام ،سیدۃ النساء للعلمین بی بی فاطمہ زہرا علیہا السلام اور مولائے کائنات سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو جمع کیا ۔ ان کے جمع کرنے کا مقصد عیسائیوں کو بتا دینا تھا کہ ہم مباہلہ کو تیار ہیں۔ جب نجران کے عیسائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل بیت اطہار کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ بادشاہ ہیں تب بھی ان سے مباہلہ کرنا ٹھیک نہ ہوگا کیوں کہ تمام عرب میں ہم ہی ان کی نگاہ میں کھٹکتے رہیں گے اور اگر یہ نبی مرسل ہیں تب تو ان کی لعنت کے بعد ہمارا نام و نشان بھی زمین پر باقی نہ رہے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم ان کی ماتحتی قبول کر لیں۔ اس فیصلہ پر اتفاق کے بعد یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مباہلہ سے بہتر ہمارے لئے یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے خیال میں ہو اور ہمارے لئے جو بہتر ہو وہ ہم پر مقرر فرما دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لئے ایک معاہدہ لکھا کرعطا کیا ۔ اس معاہدہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فیاضی، عطا و مراعات و حقوق کے روشن پہلو دنیا کے سامنے آئے۔نجران کے معاہدہ نے اسلامی رواداری کے پہلوئوں کو منور کیا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۹‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت حجر بن عدی ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت حجر بن عدی ؓ کندہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت حجر بن عدیؓ اپنے بھائی حضرت ہانیؓ کے ساتھ بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایک روایت کے بموجب حضرت حجر بن عدیؓ ۹ھ میں وفد کندہ کے ساتھ بارگاہ رسالت پناہی میں حاضر ہوئے تھے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔آپ حجر الخیر سے ملقب تھے۔ حضرت حجر بن عدیؓ فضلائے صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔آپ انتہائی زاہد اور عابد تھے اور صلحائے امت میں ایک اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔آپ فارس کے فتوحات میں شریک تھے۔آپ کی معرکہ قادسہ اور مدائن میں شرکت اور مجاہدانہ خدمت کاذکر ملتا ہے۔ جنگ جمل و صفین میں امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے پر جوش ہامیوں میں سے تھے۔ مولائے کائناتؑ کی شہادت کے بعد بھی حضرت حجرؓ کی اہل بیت پر فدائیت اور جاں نثاری میں فرق نہ آیا اور اور آپ آمام حسن مجتبیٰ ؑ کے حامی اور خیر خواہ رہے۔ امام حسنؑ کی خلافت سے سبکدوشی کے بعد جب علانیہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ پر سب و شتم کا سلسلہ شروع ہوا تو عام مسلمان اپنی جان جانے کے خوف سے خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہو جاتے تھے لیکن کوفہ میں حضرت حجر بن عدیؓ سے صبر نہ ہو سکا اور انھوں نے جواب میں حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی علانیہ تعریف شروع کر دی۔ اسی دوران انھوں نے گورنر کوفہ کو نماز کی تاخیر پر ٹوکا۔اس پر حضرت حجرؓ اور ان کے بارہ ساتھیوں کو حکومت کے خلاف سازش کے تحت گرفتار کر کے شام بھیجا گیا جہاں انھیں شہید کر دیا گیا۔آپ کی شہادت کی خبر سن کر ام المومنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ نے سخت رنج کا اظہار کیا۔آپ کے دو بیٹے تھے لیکن وہ دونوں بھی اسی اثناء شہیدہوگئے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۹‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ جناب محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔