آیت مباہلہ کے نزول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم الٰہی کی تعمیل میں حضرات حسنین کریمینؑ، سیدہ فاطمہ زہراؑ اور سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کو جمع کیا
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۰۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۸؍جنوری(پریس نوٹ) بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد نجران کا ذکر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ نجران کے عیسائیوں کے معتبر و معتمد افراد دو مرتبہ مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ پہلی جماعت جو آئی تھی اس کی تفصیل اس طرح ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل نجران کو جب دعوت حق قبول اسلام کا مکتوب اقدس روانہ فرمایا تو اسقفِ نجران نے اس کو پڑھا اور اس کے سارے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اسقف نے راے طلب کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے نجران کے تین موثر شخصیات کو طلب کیا۔ ان سب لوگوں نے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی ذریت میں نبوت بھی ہوگی۔ ممکن ہے کہ یہ وہی ہستی ہوں۔ لیکن یہ لوگ نبوت کے متعلق اپنی رائے دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ اسقف نے گرجے کا گھنٹا بجانے کا حکم دیا اور وادی کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نامہ اقدس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سانایا۔ مشاورت کے بعد یہ طے ہوا کہ نجران کے تین موثر اشخاص شرحبیل ہمدانی، عبد اللہ حمیری اور حبار بن قیص کو مدینہ منورہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا جائے ۔ حسب قرارداد یہ تینوں بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی شخصیت کے متعلق گفتگو کی۔ اسی ضمن میں یہ آیات جلیلہ کا نزول ہوا۔ ’’عیسیٰؑ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم ؑ کی سی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے بنایا پھر فرمایا کہ ’ہو جا‘ تو وہ ہو گیا۔ سچی بات تمہارے پروردگار کی طرف سے یہی ہے، اب تم شک کرنے والوں میں نہ رہو ۔ اور جو کوئی تم سے اس علم کے بعدجھگڑا کرے اسے کہہ دو کہ ہم اپنی اولاد کو بلاتے ہیں تم اپنی اولاد کو بلائو اسی طرح ہماری عورتیں اور تمہاری عورتیں، ہم خود بھی اور تم خود بھی جمع ہوں پھر اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور اللہ کی لعنت جھوٹے پر ڈالیں‘‘۔ ان آیات کے نزول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام، حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام ،سیدۃ النساء للعلمین بی بی فاطمہ زہرا علیہا السلام اور مولائے کائنات سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو جمع کیا اور مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۰۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حسینی حمیدی علی پاشاہ نے اپنے خطاب میں سیرت النبی ؑکے منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت شماس بن عثمان ؓ کے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت شماسؓ بن عثمان قدیم الاسلام صحابہ میں سے تھے۔اعلان اسلام کے ابتدائی زمانے میں دعوت حق پر لبیک کہا اور مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی والدہ حضرت صفیہؓ نے بھی اسلام لایا تھا۔ بعض ارباب سیر کا کہنا ہے کہ حضرت شماسؓ کا نام عثمان تھا اور لقب شماس اس لئے تھاکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حسن و جمال سے نوازا تھا تاہم راحج قول یہی ہے کہ ان کا نام شماسؓ بن عثمان بن شرید ہے۔ اہل مکہ کے مظالم سے تنگ آکرحضرت شماسؓ اور ان کی والدہؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی سعادت پائی تھی۔ حضرت شماسؓ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا شرف بھی حاصل کیا۔ مدینہ منورہ میں حضرت شماسؓ ، حضرت مبشر بن عبد المنذرؓ کے مہمان بنے اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں حضرت حنظلہؓ کا دینی بھائی بنا دیا۔آپ غزوہ بدر میں شریک تھے۔غزوہ احد میں ثابت قدم رہنے والوں میں حضرت شماس بن عثمانؓ کا نام نمایاں طور پر ملتا ہے۔حضرت شماسؓ غزوہ احد میں محافظت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جلیل القدر منصب پورا کرتے ہوے گوہر مقصود پا لیا اور شہادت سے سرفراز ہوے۔ حضرت شماسؓ بن عثمان نے غزوہ احد میں نہایت پامردی، حوصلہ مندی ، استقامت اور جراء ت کے ساتھ دشمن کا سامنا کیا اور بھر پور قوت کے ساتھ مجادلہ کیا۔ ان کے کمالات حرب، بہادری اور بہترین معرکہ آرائی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعریف فرما کر ان کو اعزاز بخشا۔روز احد انھوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ڈھال بنا لیا تھا۔ ہر تیر جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف آتا حضرت شماسؓ اپنے سینے سے روک لیتے اور ہر وار کے مقابلہ میں سپر بنے ہوے تھے۔ یہاں تک کہ اسی فریضہ محافظت کو انجام دیتے ہوے اپنی جان کو محبوب کبریاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان کر دیا اور جام شہادت نوش کیا۔ غزوہ احد میں شہادت کے وقت ان کی عمر شریف ۳۴ سال تھی۔ انھیں احد کے گنج شہیداں میں سپرد لحد کیا گیا۔ ایک روایت کے بموجب حضرت شماسؓ کو شدید زخمی حالت میں مدینہ منورہ لایا گیا اور ایک دن بعد وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں ان کے جسد کو احد واپس لایا گیا اور انہی خون آلود کپڑوں میں شہدائے احد کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۰۷‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمدمظہر اکرام حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔