حضرت سیدنا امام حسین ؑ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حسن و جمال اقدس کے مظہر اور سیرت طیبہ کے نمونہ کامل

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۴ ۱۵۱ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۲۶؍فبروری(پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دلبند و سبط اصغر یعنی شہزادیٔ کونین خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراعلیہا السلام اور امیر المومنین ابوالائمہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے فرزند دوم حضرت سیدنا امام حسینؑ شعبان المعظم سنہ ۴ ھ میں تولد ہوئے۔ حضرت سیدنا امام حسینؑ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔حضرت سیدنا امام حسینؑ کی ولادت با سعادت کی خوش خبری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بے حد شاداں کیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نو مولود کو شہد چٹایا اور اپنی زبان مبارک سے ان کے دہن کو تر کیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسین رکھا۔ حضرت امام حسنؑ کی طرح حضرت امام حسینؑ بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے حد عزیر اور محبوب تھے۔ دونوں اکثر سینہ مبارک پر چڑھے کھیلا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں اپنے شانوں پر بٹھا لیا کرتے۔ حالت نماز میں بھی چہیتے نواسے جدا نہیں ہوتے۔ رکوع میں پیروں سے لپٹ جاتے، سجدہ میں پشت اقدس پر راکب نظر آتے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں‘‘۔  حضرات خلفائے ثلاثہؓ اپنے عہد میں حضرات حسنین کریمین ؑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسوں اور چہیتے ہونے کے لحاظ سے بڑا پاس کیا کرتے اور ان سے دلی محبت رکھا کرتے تھے۔ حضرت امام حسینؑ نے اپنے والد بزرگوارؑ کی اطاعت و فرمانبردرای کی روشن مثال قائم فرمائی۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد اپنے برادر کلاں کے ساتھ بھی اطاعت و محبت کا معاملہ رکھا اور ان کے ہر فیصلہ پر تسلیم و قبولیت کا رویہ اپنایا۔ نہایت حساس اور نازک موقعوں پر بھی ان کی مرضی کا پورا احترام کیا۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۱۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کی سیرت پاک پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۸‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوء بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حسن و جمال اقدس کا عکس اور سیرت طیبہ کا پر تو، سبط معظم، سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت میں نمایاں تھا جنھوں نے اپنی بے نظیر قربانیوں اور شہادت کے ذریعہ دنیا کو حق و باطل کا فرق سمجھا کر اقامت دین کی خاطر ہر طرح کے ایثار اور بقاے حق و صداقت کے عظیم مقصد کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا راستہ دکھایا۔ احقاق حق اور ابطال باطل، یقین و توکل، عزم و استقامت، جراء ت و ہمت، شجاعت و حوصلہ مندی اور صبر و رضا کا کوئی تذکرہ ہو وہ حضرت امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کے اولین حوالے کے بغیر نامکمل رہ جاتا ہے۔   مسلمانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور حضرت امام حسین ؑ کی مبارک زندگی اور حق و صداقت پر مبنی تعلیمات پر عمل پیرائی لازمی اور موجب سعادت دارین ہے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین ؑ کے لئے دعا فرمائی کہ ’’الٰہی میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو(شخص) ان سے محبت کرے (اے اللہ) اس سے بھی محبت فرما‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسینؑ کو جنت کے سردار ہونے کی سند عطا فرمائی اور امام حسین کے متعلق یہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘۔حضرت امام حسینؑ انتہائی متواضع تھے، غرباء و مساکین کے ساتھ نشست اور تناول طعام فرماتے۔ لوگوں کے قصور معاف کر دیتے۔ آپ کی زندگی اطاعت الٰہی اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نمونہ تھی۔ حضرت امام حسینؑ  حق پرست، حق نگر، حق شناس اور حق گو تھے۔ اظہار حق کے ضمن میں ان میں بڑی جراء ت اور جسارت تھی، وہ باطل کے آگے کبھی نہ جھکے۔ فن خطابت میں حضرت امام حسین ؑ  کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ اس دور کے ممتاز خطیبوں میں آپ نمایاں تھے۔ واقعہ شہادت کے سلسلہ میں حضرت سیدنا امام حسینؑ کے خطابات اپنی معنویت، جامعیت اور اثر انگیزی کے لحاظ سے جواب نہیں رکھتے۔ آپ نہایت بلند مرتبت شاعر بھی تھے۔ ادب کی کتابوں میں آپ کے حکیمانہ اشعار ملتے ہیں۔ حضرت سیدنا امام حسین ؑکے اخلاق و حکمت پر مشتمل کلمات ہر دور میں زبان زد خاص و عام رہے۔ ان کلمات مبارکہ میں سے چند یہ ہیں٭ حسن خلق عبادت ہے ٭ رازداری امانت ہے  ٭خاموشی زینت ہے ٭ سچائی عزت ہے ٭جھوٹ عجز ہے ٭ بخل فقر ہے ٭سخاوت دولت مندی اور نرمی عقلمندی ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۱۴‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ جناب الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔