امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہٗ باب علم، شجاع اسلام، فاتح خیبر، عادل، فقیہ اور سر چشمہ فیضان ولایت 

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’ ۱۵۱۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۵؍فبروری( پریس نوٹ) حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش رحمت میں نشو و نما پانے والے بنو ہاشم کے روشن چراغ،شجاع اعظم، شیر خدا، امیر المومنین حضرت سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہٗ کو سبقت اسلام کا منفرد اعزاز اور ابتداء ہی سے خدمات دین حق کا شرف حاصل ہوا ۔ عشق و اطاعت حق تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت اور اتباع کاملہ، قرآن و سنت پر عمل پیرائی کا اعلی ترین نمونہ حضرت سیدنا علی بن ابی طالب ؑ کی حیات و معمولات و اخلاق و کردار اعلیٰ میں بہر پہلو ملتا ہے ۔ ان کی مبارک زندگی علم و تقوی، شجاعت و سخاوت، خصائل حمیدہ، قول و عمل کی یکسانی کا اعلی ترین امتزاج پیش کرتی ہے۔ فہم قرآن مجید، روایت و کتابت احادیث اور استنباط مسائل میں حضرت علی ؑ بے مثل و بے نظیر ہیں آپ کی مجتہدانہ شان، عادلانہ مزاج، عمدہ فیصلوں اور بلند تر علمی مرتبہ کا معاصر صحابہ کو اعتراف تھا۔ حضرت علی ؑ  قرآن شریف کی آیات کے نزول کے موقع و محل اور جملہ تفصیلات سے واقف تھے کہ کونسی آیت مبارکہ کب، کہاں اور کس کے بارے میں اتری ہے، فقہی احکام پر مبنی احادیث نبویؐ کا ایک مجموعہ ہمیشہ آپ کے پاس رہا کرتا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہٗ علم و حکمت کے بحربے کنار، فصاحت و بلاغت میں یکتاے روزگار تھے حضرت علی المرتضیٰ ؑ کے خطبات علم و حکمت، تدبر و دانائی، زبان و بیان، روانی و سلاست ،جامعیت اور تاثیر ہر لحاظ سے شاہکار ہوا کرتے تھے اس عہد میں لکھنے کا بہت کم رواج تھا اس کے باوجود حضرت علی  ؑ کو تحریر میں کمال حاصل تھا۔شجاعت و بہادری کا کوئی تذکرہ ہو حضرت علی ؑ کے نام مبارک کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ آپ نے تبوک کے سوا تمام غزوات مقدسہ میں اپنی بے پناہ قوت ، دلاوری، جراء ت و حوصلہ مندی، مہارت حرب کا سکہ بٹھا دیا اور اپنی سیف کے جوہر دکھاے۔ باب علم، شیر خدا حضرت علی  ؑ، حضور رحمتہ للعلمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہیتے اور ابن عم، فاتح خیبر، قاضی یمن اور سلاسل طریقت کے امام اور سر چشمہ فیضان ہیں۔ آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور  ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۱۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میںجشن ولادت مولود کعبہؑ کے ضمن میں امیر المومنین مولائے کائنات حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی سیرت پاک کے منور پہلوئوں پر لکچر دیا گیا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے نگرانی کی۔قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۵‘ واں سلسلہ وار، پر مغز اور معلومات آفریں لکچر دیا۔بعد ازاں انھوں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی حیات مبارکہ کے مختلف نورانی پہلو پیش کرتے ہوے کہا کہ حضرت علی  ؑ کی نسبی شرافت مسلمہ ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالبؓ کے فرزند جلیل اور سردار مکہ مکرمہ حضرت عبدالمطلبؓ کے پوتے تھے اور بچپن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفالت فرمائی۔ ساری زندگی   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارنے کا شرف پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی شہزادی کونین سیدۃ النساء عالمین خاتون جنت حضرت بی بی سیدہ فاطمہ زہرا علیہاالسلام سے تزوج آپ کے کلاہ افتخار کا امتیازی طرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اطہرؐ کے ساتھ سچی وارفتگی، جاں نثاری کے روح پرور مظاہراور بے پایاں محبت کے باعث ساری امت کے قلوب میں مولائے کائنات حضرت سیدنا علی ؑ کی محبت نے گھر بنا رکھا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تقرب خاص، برادر عم زاد، داماد اور نہایت چہیتے رفیق ہونے کے باوصف حضرت سیدنا علی ؑ نے اپنی زندگی کے ہر پل میں آداب و احترام رسالتؐ  کو ملحوظ رکھا اور جاں نچھاور کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ حضرت علی  ؑ کو ہمیشہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس کی سعادتیں ملتی رہیں یونہی رحلت شریف کے بعد خدمات خاص کا شرف بھی ملا۔انھوں نے بتایا کہ بعثت شریف سے تقریباً دس سال قبل۱۳؍ ماہ رجب المرجب کو حضرت علی  ؑ کی ولادت با سعادت کعبۃ اللہ شریف میں ہوئی ۔ کم عمری میں سعادت ایمان سے ممتاز ہوے اور پھر نصرت دین کے لئے وقف ہو گئے۔ شب ہجرت بستر رسول ؐ پر استراحت کا شرف پایا۔ بعدازاں خود بھی ہجرت کی۔ حضرت سیدنا علی شیر خدا  ؑنے غزوئہ بدر میں شجاعت و بسالت کے پرچم لہراے ، احد میں ثابت قدم صحابہ میں نمایاں رہے ، جملہ غزوات میں سواے تبوک کے حضرت علی  ؑ کی دلیری اور بہادری کے ڈنکے بجتے رہے۔ ۳۵ھ میں حضرت علی  ؑکے دست مبارک پر مسلمانوں نے بیعت کی اور بحیثیت امیر المومنین آپ نے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی مخلصانہ خدمت کی اور ماہ رمضان المبارک ۴۰ ھ میں شہادت کا جام نوش فرمایا۔ اطاعت الٰہی، اتباع رسالتؐ، تقویٰ و پرہیزگاری، عبادت و ریاضت، صبرآزما مجاہدات، تزکیہ نفس، عزم، استقلال، اخلاص فکر و عمل اور علوم و فنون مختلفہ میں حضرت سیدنا علی ؑ بے نظیر تھے اور آپ کی عبقری شخصیت گزشتہ چودہ صدیوں سے ارباب فکر و نظر کی توجہات کا مرکزہے مسلمانوں کے ہر طبقہ میں حضرت سیدنا علی  ؑ کی مقبولیت، اہمیت اور محبوبیت ایک واقعہ ہے۔ بلا شبہ حضرت سیدنا علی  ؑ فصیح البیان اور خطابت میں منفرد اورعلو منزلت تھے۔ اخلاق کے لحاظ سے آپ نہایت اعلیٰ و ارفع صفات جمیلہ کے مالک تھے ۔دنیا سے بے رغبتی ، استغنا اور خشیت الٰہی حضرت سیدنا علی  ؑ کے خصائص میں نمایاں تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا علی  ؑ کو جملہ خوبیوں اور کمالات سے متصف فرما کر اپنے محبوب ؐ کا رفیق بنا دیا۔ اسی لئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  ؑسے فرمایا کہ تم مجھ سے اس درجہ میں ہو جو ہارونؑ کو موسیٰ  ؑسے تھابجز اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہیؐ میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۱۱‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔