روزہ اہم فریضہ دین، ایمان و اطاعت کا نشان، تزکیہ و تصفیہ باطن کا موجب

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۱۸ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۲۶؍مارچ ( پریس نوٹ) اللہ تعالیٰ خالق کائنات، رب العلمین اور معبود حقیقی ہے تخلیق انسان و جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہے۔ عبادت تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ کی کبریائی، قدرت و ربوبیت کا اقرار اور بندوں کے عجز و فروتنی کے اظہار کی علامت ہے۔ اسلام نے عبادت حق تعالیٰ کے فطری طریقوں کی تعلیم دی ہے جن میں ’’روزہ‘‘ انفرادی شان و الا نہایت اہم فریضہ ہے جو سال بھر میں ایک ماہ رمضان مبارک کی حد تک مخصوص ہے ۔روزہ  ایمان ،اطاعت خالص اور صبر و ضبط کا تابناک نشان ہے جس کا مقصود خاص تقویٰ اور شکرگزاری کے فیوض و برکات سے نوازنا ہے اس کے ذریعہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ،افضال و اکرام کا صحیح اندازہ اور قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ روزہ کی شان اور فضیلت اس حدیث قدسی سے عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزاء میںہی دوں گا۔ ماہ رمضان مبارک کا آنا خیر و برکات الہٰیہ کی نوید ہے اس ماہ شریف کی آمد پر خوشی کا اظہار ایمان کی علامت ہے۔ آج صبح ۱۰بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور ۱۲ بجے دن جامع مسجدمحبوب شاہی مالا کنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے زیر اہتمام ’۱۵۱۸‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’فریضہ صوم‘‘میں ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا گیا۔ مذاکرہ کی نگرانی پروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی  ؒنے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ  روزہ اہل ایمان کے لئے نیا نہیں ہے۔ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا ہے کہ امم سابقہ پر بھی یہ عبادت فرض تھی۔ روزہ میں نیت ضروری ہے رمضان مبارک کے ہر روزہ کی علیحدہ نیت شرط ہے۔ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ نیت دلی ارادہ کو کہتے ہیں اس کی بڑی اہمیت ہے کیوں کہ اعمال صالحہ کے عدم صدور کے باوصف اعمال صالحہ کی نیت خیر کا اجر و ثواب محفوظ ہوجاتا ہے۔ روزہ دار کے لئے ہر طرح کی برکتیں محفوظ ہوتی ہے اس کے لئے جہاں سمندروں کی مچھلیاں دعاگو رہتی ہے وہیں یہ فضیلت کیا کم ہے کہ روزہ دار کی بوے دہن مشک سے زیادہ معطر اور پسندیدہ ہے۔ روزہ دار پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہوتا ہے۔ انھوں نے احادیث شریفہ کے حوالوں سے بتایا کہ جب ماہ صیام رمضان مبارک شروع ہوتا ہے تو آسمانوں کے ابواب و ا ہو جاتے ہیں جن سے ہر لمحہ اس مقدس مہینہ میں رحمت حق تعالیٰ کا نزول ہوا کرتا ہے جنت سال بھر اس ماہ مبارک کے لئے آراستہ کی جاتی ہے اور رمضان شریف میں اس کے دروازے کھل جاتے ہیں دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین کی سرکشی معطل کر دی جاتی ہے کیوں کہ انھیں زنجیروں میں جکڑ کر مقید کر دیا جاتا ہے۔ اہل ایمان ماہ رمضان کے فرض روزوں کے ذریعہ رضاے حق تعالیٰ کے مستحق بن جاتے ہیں۔ روزہ دار کی دعائیں مقبول بارگاہ الٰہی ہیں بلا شبہ روزہ داروں کو دائمی راحت اور سچی خوشی نصیب ہوتی ہے رب تعالیٰ سے ملنے کی خوشی اور افطار کی مسرت محض روزہ داروں کے ساتھ خاص ہے جنھیں دو خوشیوں سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ روزہ چوں کہ خالص اللہ کے لئے ہے اس لئے اس کا اجر بھی رب تعالیٰ خود عطا فرماتا ہے یہ اختصاص محض روزہ کی فضیلت کے اظہار کے لئے ہے۔انھوں نے فرضیت صوم کی عظمت کے مختلف پہلوئوں کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً اکل و شرب و جماع سے روکے رکھنا صوم ہے جسے فارسی زبان میں ’’روزہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اردو زبان میں بھی اس عبادت کے لئے فارسی لفظ ’’روزہ‘‘ ہی مروج و مقبول ہے۔ روزہ جبر و بے چارگی کا مظہر نہیں بلکہ بندہ مومن کا اختیاری عمل ہے اسی لئے روزے مدینہ منورہ میں مسلمانوں پر اس زمانے میں فرض ہوے جب وہ آسودہ حال اور پر سکون زندگی سے نوازے گئے تھے۔ رمضان کے روزے رکھنے والا گناہوں سے بری کر دیا جاتا ہے روزہ دار صفات ملکوتی سے متصف ہو جاتا ہے روزہ کا فیضان توکل، اطاعت حق کا جذبہ صادق، صبر، ضبط نفس، انسانی ضروریات کا ادراک، شکرگزاری اور نیکی و بھلائی میں مشغولیت ہے۔ شرارت نفس کے سبب ترک صوم گناہ عظیم ہے کیوں کہ ابلیس ماہ رمضان میں زنجیروں میں جکڑا گرفتار و قید ہوتا ہے۔ روزہ صبر و استقامت، ضبط و تحمل کا موجب اور رضاے حق تعالیٰ و رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ اور دیگر عبادات میں بلاشبہ تابناک امتیاز ہیں۔ روزہ کی انفرادی شان یہ ہے کہ اس عبادت کے دوران بندہ دیگر عبادتوں کی ادائیگی اور اعمال صالحہ کے تسلسل سے بھی شرف یاب ہوتا رہتا ہے۔ حالت روزہ میں فرض نمازیں ، نفل نمازیں ،طواف خانہ کعبہ، قرآن پاک کی تلاوت، ذکر ،تسبیح، زکوٰۃ کی ادائیگی، خیرات و صدقات نافلہ کا سلسلہ، کسب معاش اور مخلوق خدا کی خدمت گزاری سب کچھ کرتا ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اور اسلام کا اہم ترین فرض ہے جس کی فرضیت کا حکم ماہ شعبان ۲ ھ میں بمقام مدینہ منورہ آیا۔ کھانا پینا اور جماع کا ترک کرنامعین اوقات میں روزہ ہے جبکہ اس کا مقصد ترک اکل و شرب و جماع کے ساتھ تمام گناہوںاور برائیوں سے بچنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے کنارہ کش ہوجانا ہے یہ سب سے اعلی ترین صورت ہے۔ رمضان شریف خواہ ۲۹ دن کا ہو یا ۳۰ دن کا ہو اللہ تعالیٰ روزہ داروں کو کامل مہینہ کے اجر و ثواب سے نوازتا ہے۔ اسلام نے روزہ کے ضمن میں بھی اپنی تعلیمات کے خصائص کے لحاظ سے افراط و تفریط کے بجاے اعتدال کا طریقہ روا رکھا ہے۔ روزہ ایک  سِر اور راز ہے جو عبد و معبود کے درمیان ہے کسی تیسرے کو اس کی کیفیت کا اندازہ نہیں ہوتا ۔ترک اکل وشرب کے ساتھ معاصی و معائب سے اجتناب اور سواے اللہ تعالیٰ کے ہر ایک سے بے تعلقی اس عبادت کا خاصہ ہے۔ ظاہر و باطن کی صفائی اور پاکیزگی اس عبادت کا فیضان ہے۔ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںحضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام گزرانا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا یہ ’’۱۵۱۸‘‘ واں اجلاس و مقصدی مذاکرہ’’فریضہ صوم‘‘ اختتام کو پہنچا۔الحاج محمدمظہر اکرام حمیدی نے  آخر میں شکریہ ادا کیا۔