حضرت مالک بن تیِّہان ؓ کو بیعت عقبہ میں شرکت اور بارہ نقباء میں شمولیت کا اعزاز
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۵ ۱۵۱ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۵؍مارچ(پریس نوٹ) تبوک سے مراجعت کے بعد بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہونے والے وفود میں وفد داریین کا ذکر ملتا ہے۔اس وفد میں جملہ دس آدمی تھے۔یہ لوگ اسلام لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے کچھ لوگوں کے نام تبدیل فرمائے۔ان میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مشک، چند گھوڑے اور ایک ریشمی قباء جس میں سونے کے پتر لگے ہوئے تھے، بطور ہدیہ نذر پیش کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گھوڑوں اور قباء کو قبول فرمالیا اور مشک کو قبول نہیں فرمایا کیوں کہ اس میں ایک مشروب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ قباء حضرت عباس بن عبد المطلبؓ کو مرحمت فرمایا اور انھیں فروخت کرنے کی بھی اجازت دی۔ حضرت عباس بن عبد المطلبؓ نے اس قباء کو آٹھ ہزار درہم میں فروخت کر دیا۔ وفد میں شامل تمیم بن اوسؓ نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ہمارے نواح میں روم کی ایک قوم ہے جن کے دو گائوں ہیں۔ اللہ آپ کو ملک شام پر فتح عطا فرمائے تو یہ دونوں گائوں مجھے ہبہ فرما دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ تمہارے ہی ہوں گے‘‘۔ بعد میں جب شام فتح ہوا تو وہ گائوںانھیں دئیے گئے۔ داریین کا وفد مدینہ منورہ میں عرصہ دراز تک مقیم رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وفد والوں کے لئے ایک سو وسق (پیمانہ غلہ) کی عطائی کا فرمان جاری کیا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۱۵‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں ’’وفود کی آمد‘‘ پر لکچر دیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۳۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت مالک بن تیہان انصاریؓکے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت مالک بن تیہانؓ ان چھ نفوس قدسیہ میں شمار ہوتے ہیں جنھیں مدینہ منورہ کے انصاریوں میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نیاز مندی کا شرف حاصل ہوا۔ وہ مکہ مکرمہ جاکر اس سعادت سے مالا مال ہوے۔ حضرت مالک بن تیہانؓ اپنی قوم کے ان اولین لوگوں میں سے تھے جنھوں نے مدینہ منورہ واپس پہنچ کر تبلیغ و اشاعت دین کے فریضہ کو انجام دیا۔ حضرت مالک بن تیہانؓ ان سلیم قلب لوگوں میں سے تھے جنھیں زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی ناپسند تھی اور مشرکانہ رسم و رواج سے متنفر تھے اور شرک کی برائیوں میں مبتلا لوگوں سے میل جول کو برا جانتے تھے بت پرستی سے بیزار لوگوں میں ان کے ساتھی حضرت اسعدؓ بن زرارہ بھی تھے۔ یہ دونوں توحید کے قائل تھے ۔ حضرت مالک بن تیہانؓ مدینہ کے انصار کے ہمراہ بھی عقبہ میں حاضر ہوے تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت خاص کا اعزاز پایا۔ ارباب سیر اس حقیقت کا متفقہ اظہار کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن تیہانؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارہ نقباء میں شامل فرمایا تھا۔ یہ واقعہ ہے کہ انصار مدینہ میں اپنے سبقت اسلام کے باعث اور نقباء میں شمولیت کے سبب ان کا معاصرین میں بڑا اکرام تھا۔ حضرت مالک بن تیہانؓ کی کنیت ابو الہیثم تھی۔ ان کے والد تیہان بن مالک تھے بعض نے بلی بن عمرو کہا ہے۔ وہ قبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے اور بنو عبد الاشہل کے حلفاء سے تھے اور انھیں کے نقیب مقرر ہوے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابو الہیثمؓ اوس سے تھے۔ حضرت ابو الہیثمؓ کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت عتیک تھا۔ حضرت ابو الہیثمؓ اور حضرت عثمان ؓبن مظعون میں مواخاۃ ہوئی تھی۔ حضرت ابو الہیثمؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بدر و احد و خندق میں شریک ہونے اور تمام مشاہد میں حاضر رہنے کا شرف ملا۔ انھیں کھجوروں کا اندازہ کنندہ بنا کر حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا یہ اس وقت ہوا جب حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے موتہ میں شہادت پائی تھی۔ حضرت ابو الہیثمؓ مدینہ منورہ کے خوشحال اور با اثر لوگوں میں ممتاز تھے ان کے پاس کھجورو ںکے باغ اور مویشیوں کے ریوڑ تھے اپنے مال سے مسلمانوں کی راحت رسانی کا سامان کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام کے ہمراہ ان کے باغ تشریف لے گئے تھے حضرت ابو الہیثمؓ کی مسرت کی انتہا نہ رہی انھوں نے اپنے باغ کے تازہ کھجور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور برکتوں کی ضمانت حاصل کی۔ آپ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں۔ایک قول کے مطابق حضرت ابو الہیثمؓ نے حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی لیکن ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ وہ حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے ساتھ جمل اور صفین میں حاضر تھے اور جنگ صفین میں جام شہادت نوش کیا۔ حضرت ابو الہیثمؓ کو ایک دختر حضرت امیمہ تھیں۔ ان کے بھائی عبید بن التیہانؓ بھی عقبہ میں حاضر ہونے والے انصاریوں میں شامل تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۱۵‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ جناب الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔