حضرت عبد اللہ بن اُنیسؓ کو علوم نبویہ سے بہرہ مند ہونے، روایت حدیث اور شرکت غزوات کا شرف ملا

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۲۳ ‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس 

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۳۰؍اپریل ( پریس نوٹ)۱۰ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات شریف کا واقعہ ہوا۔ اس واقعہ کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چشمان اقدس سے آنسو رواں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ آنسو رحمت کی نشانی ہیں اور جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ’’ہم ابراہیم ؑ کی وفات پر غمگین ہیں ، آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں، دل مغموم ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں نکالتے جو ہمارے رب کی ناراضگی کا باعث ہو‘‘۔ حضرت ابراہم بن رسول مقبول علیہ السلام کی وفات عالم شیرخوارگی میں ہوئی اس وقت ان کی عمر شریف بروایت راجح ۱۶ مہینے تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ابراہیم ؑ اپنی شیرخوارگی کے بقیہ ایام جنت میں گزاریں گے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے جگر گوشہ لخت دل حضرت ابراہیم ؑ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کرنے کا حکم فرمایا اور ان پر خودنماز جنازہ پڑھائی ۔ تدفین کے بعد ایک مشک پانی قبر پر چھڑکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا کہ قبر شریف کے ایک حصہ پر مٹی جمع ہو گئی ہے تو خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے مٹی کے اس ڈھیر کو برابر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے جب کوئی آدمی کام کرے تو اسے چاہئیے کہ وہ اس کام کو بڑی عمدگی کے ساتھ کرے‘‘۔ وفات شریف کے دن سورج گرہن لگ گیا تو لوگوں نے اسے حضرت ابراہیمؑ کی وفات کے سبب بتانا شروع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو حق تعالیٰ کی قدرت کی علامات ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ساعت میں ان دونوں کی چمک دمک اور نور انیت کو (جن سے روے زمین روشن ہوتی ہے) سلب کر کے تاریک و سیاہ کر دیتا ہے اسی طرح وہ قادر ہے کہ آدمیوں سے ان کے ایمان و علم کے نور کو سلب کر لے اور انھیں تاریک کر دے۔ کسی کی موت و حیات کا اس میں دخل نہیں ہے۔ پھر جب دیکھو کہ گہنا گئے ہیں تو اللہ کو یاد کرو ، صدقہ و خیرات کرو اور غلاموں کو آزاد کرو‘‘۔روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم بن رسول اللہ علیہ السلام کی وفات شریف دسویں محرم یا دسویں ربیع الاول کو ہوئی۔ ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۲۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میںواقعات قبل حجۃ الوداع پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضاحمیدی نے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر لکچر سیریز کا انگریزی میں دوبارہ آغاز کیا۔ انھوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نورانی حقیقت اور آپ کے اجداد محترم کے حالات کو اپنے لکچر میں پیش کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۴۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت عبد اللہ بن انیس اسلمی ؓکے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت عبد اللہ بن اُنیسؓ ان گرامی منزلت ہستیوں میں سے ہیں جنھوں نے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شرف حاصل کیا تھا اور ان سے سماعت حدیث کے لئے حضرت جابر بن عبدؓ اللہ نے ایک ماہ کی مسافت طے کر کے حدیث شریف کے سننے کی اہمیت اور فضیلت کا ایمانی احساس دلایا۔ اس حدیث شریف کو حضرت جابرؓ نے نہیں سنا تھا اور اس خیال سے کہیں اس ارشاد پاک کو سنے بغیر وفات پا جائیں یا خود حضرت عبد اللہ بن اُنیسؓ سنانے کے لئے موجود نہ رہیں انھوں نے بعجلت ممکنہ ارادہ سفر کیا اور ایک ماہ کی دشوار مسافت کے بعد ان کے پاس تشریف لاے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن اُنیسؓ نے حضرت جابر ؓ بن عبد اللہ سے وہ حدیث شریف بیان کی جس کا مفہوم ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مظلوم کو ظالم سے قصاص دلاے گا اور جب تک مظلوم اپنا حق نہ پالے ظالم کو نہ چھوڑا جاے گا۔ نیکیوں اور بدیوں سے قصاص دلایا جاے گا یعنی ظالم کی نیکیاں بقدر ظلم کے مظلوم کو دلا دی جائیں گی اور مظلوم کی بدیاں ظالم کے سرپر رکھی جائیں گی۔ ارباب تاریخ و تذکرہ نے حضرت عبد اللہ بن انیس اسلمیؓ کے ایک ہم نام جو جہنی ہیں دونوں کا علیحدہ حال لکھا ہے مگر ایک قول یہ ہے کہ دونوں ایک ہیں۔ موخر الذکر عبد اللہ بن اُنیسؓ کے دادا سعد بن حرام بن خبیب بن مالک تھے جن کا سلسلہ نسب برک بن وبرہ سے جا ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن انیس ؓانصاری عقبی تھے اس لحاظ سے ان کا شمار قدیم الاسلام اصحاب میں ہوتا ہے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ہمہ وقت حاضری کا شرف بھی حاصل تھا اور غزوئہ بدر و احد میں شرکت کی سعادت بھی ملی تھی۔ مابعد کے غزوات اور مشاہد میں بھی موجودگی کے ثبوت ملتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں ایک سریہ میں بھیجا تھا ۔ سریہ سے فتحیاب لوٹنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں ایک عصا عطا فرمایا۔ یہ عصا ان کی وصیت کے مطابق ان کے ساتھ ہی تدفین کیا گیا۔ ارباب سیر نے انھیں قبیلہ جہنیہ سے بتایا ہے۔ حلفاء انصار میں شمار کیا ہے بعض کا قول ہے کہ وہ خود قبیلہ انصار سے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن انیسؓ کی کنیت ابو یحییٰ تھی وہ کثیر الاولاد تھے ان کے فرزندان نے ان سے روایت کی ہے یہ وہی ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لیلۃالقدر کے متعلق دریافت کیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن انیسؓ سے مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوںمیں سب سے بڑھ کر شرک اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹی قسم کھانی ہے جب کوئی مچھر کے پر کے مقدار بھی جھوٹی قسم کھاتا ہے تو اس کے دل میں قیامت تک سیاہی بیٹھ جاتی ہے۔ خشیت الٰہی، محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، تقویٰ و پرہیزگاری مجاہدہ نفس اور علوم قرآنیہ و احادیث کے حصول و اشاعت سے معنون حیات سعید رکھنے والے حضرت عبد اللہ بن انیسؓ نے ۷۴ھ میں وفات پائی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۲۳‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ محترم الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔