سخاوت تقرب الٰہی، رضائے حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصول اور حقوق العباد کی تکمیل کا ذریعہ
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے ’’۱۵۲۰ ‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس میں مذاکرہ انفاق
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۹؍اپریل ( پریس نوٹ)رمضان مبارک‘ نزول قرآن مجید، فریضہ صوم، عبادت شبانہ، اعمال صالحہ، انفاق اور خدمت خلق سے معنون ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تینوں عشرے رحمت، مغفرت اور نجات کے ساتھ عبارت ہیں۔ آغاز وحی، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی اور فتح عظیم مکہ مکرمہ کے عظیم الشان واقعات بھی اسی ماہ مبارک سے تعلق رکھتے ہیں۔ نماز پنجگانہ اور روزوں کے ساتھ امت کے متمول صاحبان ثروت مالکین نصاب بالعموم فریضہ زکوٰۃ بھی رمضان شریف میں ادا کرنے کا اہتمام کیا کرتے ہیں اس طرح تین فرض عبادتوں کی یکجائی اس مقدس مہینے کے خصائص سے ہے۔ سخاوت اور فیاضی جو اسلام کی اساسی تعلیمات میں نمایاں ہیں ماہ رمضان سے ان کا خاص تعلق ہے۔ روزہ دار اللہ تعالیٰ کی توفیق اور کرم سے زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور مخلوق خدا کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے جذبہ احسن کے ساتھ سخاوت اور مالی ایثار کیا کرتا ہے۔ سخاوت ایسا وصف ہے جو بندہ کو معبود حقیقی سے قریب کرتا ہے اور مخلوق میں اسے محبوبیت اور عزت سے ہمکنار کرتا ہے۔ سخاوت کے ذریعہ اگر چہ کہ ایک بندہ دوسرے بندوں کی مالی اعانت کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فیاض بندہ کی فیاضی سے خوش ہوکر اسے مزید انعام و اکرام سے مالا مال فرماتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ، سنت مقدسہ اور ارشادات عالیہ میں سخاوت کا خاص موقف ہے بخشش و خیرات، اپنی خوشی سے اپنی کوئی چیز کسی حاجت مند کو دے دینا، دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مالی ایثار کرنا، اوروں کی خوشی اور ضرورت کی تکمیل کے لئے اپنی حاجت و خواہش سے دستبردار ہو جانا، لوگوں کے آرام کے لئے اپنی راحت سے دستکش ہو جانا و نیز اپنے مال، دولت ، اثر و رسوخ کو مخلوق خدا کی بھلائی کی خاطر لگا دینا سخاوت کے مختلف تابناک پہلو ہیں۔ ماہ رمضان مبارک میں سخاوت کا ہر رخ اجر و ثواب کے استحقاق اور ان میں کئی گنا زیادہ عطاء و سرفرازی کا حیلہ ہے۔ رمضان مبارک کے دوران دنیاے اسلام میں سخاوت اور فیاضانہ سرگرمیاں نقطہ عروج پر ہوتی ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سخاوت درحقیقت روح زکوٰۃ ہے۔آج صبح ۱۰بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور ۱۲ بجے دن جامع مسجدمحبوب شاہی مالا کنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے زیر اہتمام ’۱۵۲۰‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’انفاق‘‘میں ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا گیا۔ مذاکرہ کی نگرانی پروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ احادیث شریف سے ثابت ہے کہ سخی اللہ تعالیٰ، جنت اور لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے جب کہ بخیل اللہ تعالیٰ سے، جنت سے اور مخلوق خدا سے دور ہے لیکن جہنم سے قریب ہوتا ہے۔ بخل اور بدخلقی کسی مومن میں جمع نہیں ہوا کرتی ہے۔ اللہ کے سخی بندہ کے لئے زمین پر اس سے نفع پانے والے اور آسمان پر فرشتے دعا کیا کرتے ہیں کہ اے اللہ سخی کو اس کی فیاضی کا اچھا عوض اور اجر عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مالدار اور صاحب نصاب مومن بندوں پر زکوٰۃ کو فرض کیا ہے جسے نصاب کے لحاظ سے حساب کرکے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ خیرات، انفاق اور صدقات نافلہ کے لئے نہ نصاب ہے نہ مدت ہے اور نہ گنتی و شمار ہے۔ ہر ایک جو مالک نصاب ہو یا نہ ہو جب چاہے جہاں چاہے اللہ کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے ضرورت مند بندوں، فاقہ کشوں ، مسکینوں، بیوائوں، یتیموں، قرضداروں، مسافروں، بیماروں، لاچاروں اور حاجت مندوں کی مدات خیر سے امداد و اعانت کر سکتا ہے اور جو ایسا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سخی بندہ کو اپنے کرم سے اور زیادہ نواز تا ہے۔ صدقات نافلہ اور خیر کے کاموں میں خرچ کا حساب نہ لگایا جاے۔ انھوں نے کہا کہ روزہ اخلاص پر مبنی عبادت ہے روزہ دار کا ہر عمل اخلاص کے زمرہ میں شمار ہوتا ہے۔ سخاوت کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ماہ رمضان میں مسلمانوں کو عبادت خالق اور خدمت مخلوق دونوں کا شرف ملتا ہے۔ نماز ، روزہ، زکوٰۃ خالص معبود حقیقی کی عبادات ہیں اور انفاق، صدقات، کارخیر و نیز خود فریضہ زکوٰۃ جس کا عبادت الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ حق العباد سے تعلق بھی ہے ان اعمال خیر اور مالی ایثار سے روزہ دار صحیح معنوں میں رضاے حق تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرکے دارین کی سرخروئی سے مالا مال ہوتا ہے۔ سخاوت تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی ستون ہے سخاوت و فیاضی کا بھر پور سلسلہ رہے لیکن کسی کی مالی خدمت کر کے احسان جتانے سے روکا گیا ہے کیوں کہ یہ مومن سخی کے شایان شان نہیں۔ اخلاص کے ساتھ جو سخاوت کی جائے اس کا بدلہ و اجر اللہ تعالیٰ کئی گنا زیادہ بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔ صاحبان نصاب کا سالانہ فریضہ زکوٰۃ ادا کرنا بھی بلا شبہ سخاوت کے مفہوم میں ہے۔ سخاوت مال میں اضافہ اور خیر و برکت کی کنجی ہے کیوں کہ یہ ارشادملتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر خرچ کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اپنی پاک کمائی اور فی سبیل اللہ خرچ میں سے ایک حصہ ضرور بہ ضرور اپنے مستحق لواحقین کی مالی اعانت کے لئے صرف کیا جائے یہ بڑی خدمت ہے۔ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںحضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام گزرانا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا یہ ’’۱۵۲۰‘‘ واں اجلاس و مقصدی مذاکرہ’’انفاق‘‘ اختتام کو پہنچا۔الحاج محمد مظہر اکرام حمیدی نے آخر میںشکریہ ادا کیا۔