زکوٰۃ رکن اسلام، فریضہ دین اور اللہ تعالیٰ کی مالی عبادت ہے
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے ’’۱۵۱۹ ‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس میں مذاکرہ فریضہ زکوٰۃ
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
ؔ حیدرآباد ۔۲؍اپریل( پریس نوٹ) زکوٰۃ رکن اسلام، فریضہ دین اور اللہ تعالیٰ کی مالی عبادت ہے قرآن مجید میں نماز کے بعد اسی کا ذکر اور درجہ ہے۔ زکوٰۃ دین کا ایک اہم ستون ہے۔ زکوٰۃ دینے والوں کے لئے نوید ہے اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لئے سخت وعید ہے۔ چاندی، سونا، مال تجارت اور سائمہ جانوروں پر زکوٰۃ ہے۔ ان سب کی زکوٰۃ ، شرائط اور ضابطے، نصاب اور مدت کی صراحت کے ساتھ مقرر ہیں و نیز مستحقین زکوٰۃ کا بھی تعین کر دیا گیا ہے۔ نیت ادائی فرض زکوٰۃ ضروری ہے اسی طرح ایک قمری سال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ ادا کر دینا چاہئیے تاخیر و تساہل نہ کیا جاے۔ مستحقین زکوٰۃ کے متعلق جو ارشاد فرمایا گیا ہے وہ آٹھ ہیں اگر کسی میں ایک وصف بھی پایا جاے تو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تاہم سادات کرام ، ہاشمی و مطّلبی کو زکوٰۃ نہیں دی جاے گی۔ زکوٰۃ کے معنیٰ پاک کرنے اور نمو کے ہیں اس فریضہ کی ادائی کے سبب باقی مال پاک ہو جاتا ہے اور اس میں برکت و ترقی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں پر جو مالک نصاب ہیں یعنی حاجت اصلیہ، ضروریات زندگی کے ساز و سامان سے زیادہ ایک خاص مقدار مال کے مالک ہیں ان پر زکوٰۃ کو فرض فرمایا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے بہترین اجر و بدل کی نوید بھی دی گئی ہے۔ جو مال رضاے حق تعالیٰ کے حصول کی خاطر اللہ کے ضرورت مند بندوں، فقراء و مساکین پر صرف کیا جاتا ہے یقینا اس کا نہایت اچھا اور کئی گنا زائد معاوضہ خرچ کرنے والے کو عطا کیا جاتا ہے۔ صدقہ دراصل گناہوں کے وبال، نحوست اور پیش آئندہ مصائب اور بلائو ں کو ٹالنے کا وسیلہ ہے جب کہ زکوٰۃ ملت کے مالداروں سے لے کر ملت کے غرباء ، ضرورت مند اور مستحق میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ بندوں سے بندوں کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن خالق کونین اپنے کرم سے زکوٰۃ دینے والے کو مزید مال و دولت سے نوازتا ہے۔آج صبح ۱۰بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور ۱۲ بجے دن جامع مسجدمحبوب شاہی مالا کنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے زیر اہتمام ’۱۵۱۹‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’فریضہ زکوٰۃ‘‘میں ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا گیا۔ مذاکرہ کی نگرانی پروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ مال ،دولت، جاہ، حشمت اور امارت و ثروت اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں ان کی شکر گزاری کا طریقہ زکوٰۃ کی ادائیگی، صدقات کا دینا، خیرات کرنا اور اللہ کے ان بندوں کو جو غریب و مسکین، فقیر و محتاج اور ضرورت مند ہیں مالی خدمت کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ زکوٰۃ کا تعلق مال سے ہے بندہ اپنے مال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بجا لاتا ہے یعنی اس کے حکم کی تعمیل میں اپنے مال میں سے ایک مختص اور مقرر حصہ سالانہ مستحق زکوٰۃ بندگان خدا کے حوالے کرکے انھیں اس مال کا مالک بناکر خرچ کرنے کے سلسلہ میں کامل اختیار سونپ دیتا ہے۔ اموال کی دو قسمیں ہیں، ایک اموال ظاہرہ جس میں مویشی، پیداوار اور مال تجارت آتے ہیں اور ایک اموال باطنہ جس میں سونا، چاندی اور نقدی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور بندہ کا راز ہے اموال باطنہ سے متعلق صرف ان اشیاء کا مالک جانتا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا لہذا وہ خود اپنے اموال باطنہ کی زکوٰۃ اپنے ہاتھوںمستحقین زکوٰۃ کو دے۔ مصارف زکوٰۃ آٹھ ہیں لیکن فی زمانہ پانچ مصارف ہی رائج ہیں۔ فقیر، مسکین، قرضدار، فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں تمام ضرورت مندوں کو دے دینا، اور مسافر یعنی حالت سفر میں جس کے پاس کچھ باقی نہ رہا ہو۔ مابقی تین مصارف یہ ہیں۔ امیر المومنین کی طرف سے وصولی زکوٰۃ کا مقرر کردہ عامل، غلاموں کی آزادی کے لئے اور مولفۃ القلوب ۔زکوٰۃ دینے والے کو شریعت نے اختیار دیا ہے کہ سارے مصارف میں دے یا کسی ایک کو دیدے لیکن مسجد، پل،آبدرخانوں کی تعمیر و مرمت، راستوں کے بنانے، نہر کھدوانے یا تجہیز و تکفین وغیرہ میں زکوٰۃ کا دینا صحیح نہیں ہے۔ انھوں نے مسائل زکوٰۃ کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوے کہا کہ ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، بیٹا بیٹی،پوتا پوتی، نواسا نواسی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی یا شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی البتہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو ،پھر ان کی اولاد کو،اس کے بعد ترجیح چچا پھوپی اور ان کی اولاد کو، بعد ازاں ماموں خالہ، پھر ان کی اولاد، مابعد قریبی رشتہ دار، اس کے بعد دور کے رشتہ دار، پھر علی الترتیب ہم پیشہ لوگوں کو، محلے والوں، علاقہ والوں، شہر والوں اور اس کے بعد دوسرے شہر والوں کو ان کی ضرورت و حاجت کے لحاظ سے زکوٰۃ دینا افضل ہے۔انھوں نے کہا کہ اس شخص کا صدقہ قبول نہیں ہوتا جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دیدے۔ جو جتنا قریب ہے اتنا ہی زیادہ آپ کے حقوق اس پر اور اس کے حقوق آپ پر ہیں۔ قرابت داروں کو ترجیح کا سبب یہ ہے کہ اگر ہر شخص اپنے رشتہ داروں کی خبر گیری کرے تو جملہ انسانوں کی خبر گیری ہو جاے گی کیوں کہ ہر ایک کسی نہ کسی کا رشتہ دار ضرور ہوتا ہے تاہم خاص صورتوں میں ضرورت اور حاجت مندی کے لحاظ سے زکوٰۃ کے دینے میں ترجیح کی رخصت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر دو ضرورت مند برابر کے حاجت مند ہوں اور ان میں سے ایک زکوٰۃ دینے والے کا عزیز، ہمسایہ، دوست ہو تو وہ آپ کی امداد کا زیادہ مستحق ہوگا اس کے برعکس اگر کوئی غیر اپنے رشتہ دار یا عزیز سے کہیں زیادہ حاجت مند ہو تو ترجیح غیر کو دی جاے گی۔ فقراء و مساکین میں بھی انھیں ترجیح نہیں دی جاے گی جو دربدر بھیک مانگتے پھرتے ہیں بلکہ ان کو ترجیح دی جاے جو مستور الحال ہیں اور اپنی عزت اور خودداری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔ دوسرے شہروں کو خاص صورتوں میں زکوٰۃ بھیجی جا سکتی ہے کہ و ہاں رشتہ دار ہوں یا اس شہر و الوں سے زیادہ دوسرے شہر والے حاجت مند ہوں یا مسلمانوں کے حق میں وہاں بھیجنا زیادہ فائدہ مند ہو البتہ علوم دینیہ و عصریہ حاصل کرنے والے طلبہ خواہ اپنے شہر کے ہوں یا دوسرے شہروں میں رہنے والے ہوں تو ان کو دینا یا بھیجنا بلا کراہت جائز ہے۔ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںحضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام گزرانا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا یہ ’’۱۵۱۹‘‘ واں اجلاس و مقصدی مذاکرہ’’فریضہ زکوٰۃ‘‘ اختتام کو پہنچا۔الحاج محمدیوسف حمیدی نے ابتداء میں خیرمقدم کیا اور آخر میںشکریہ ادا کیا۔