حضرت معاذ بن عفراء انصاری ؓ نے غزوہ بدر میں تاریخ ساز مجاہدانہ کارنامہ انجام دیا

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۲۷ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس 

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۲۸؍مئی ( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یکشنبہ ۴؍ذی الحجہ ۱۰ھ کو اپنے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کے ساتھ مسجد حرام پہنچے۔ کعبہ معظمہ کو دیکھ کر دعا کی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ اے اللہ! تو ہی سلام ہے، تجھی میں سلامتی ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں سلامتی سے زندہ رکھ۔ اے اللہ! اس گھر کے شرف اور عزت اور رعب کو روز افزوں فرما اور اس کا حج یا عمرہ کرنے والوں میں جو اس کی عزت و عظمت کرتے ہیں ان کے مرتبہ و عزت اور خیر و صلاحیت میں دن دونی ترقی فرما‘‘۔ مسجد حرام پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ مقام ابراہیم پر دو رکعت نفل نماز ادا کی اس طرح کہ کعبہ شریف اور حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان مصلیٰ تھا۔ سعی کی جگہ سعی کی اور سعی کرنے کے بعد احرام نہیں کھولا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ اور حج کا احرام باندھا تھا۔طواف اور سعی سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالائی مکہ حجون کے پاس قیام فرمایا۔آٹھ ذی الحجہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منیٰ تشریف لے گئے اور وہاں ۹؍ ذی الحجہ کی صبح تک قیام فرمایا۔ جن لوگوں نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیا تھا ۸؍ ذی الحجہ کو حج کے لئے احرام باندھا ۔ ۸؍ ذ ی الحجہ کی ظہر سے لے کر ۹؍ذی الحجہ کی فجر تک منیٰ ہی میں نمازیں ادا کی گئیں۔۹؍ذی الحجہ کو آفتاب طلوع ہو گیا اور ہر طرف روشنی پھیل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۲۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میںواقعات حجۃ الوداع پر لکچرمیں کیا۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضاحمیدی نے اپنے انگلش لکچر سیریز میں امام علی ابن موسیٰ الرضا ؑ کی زندگی کے مبارک احوال کو پیش کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۵۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت معاذ بن عفراء ؓکے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت معاذ بن عفراء  ؓ کو ہمیشہ یہ خیال رہا کرتا تھا کہ دین حق اسلام کی ایسی شاندار خدمت کریں جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشنودی کا سبب اور مسلمانوں کے لئے باعث راحت ہو۔ ان کی یہ تمنا غزوہ بدر میں پوری ہوئی۔ حضرت معاذ بن عفراء انصاری ؓ نے غزوہ بدر میں وہ نمایاں کارنامہ انجام دیا جس کی بناء پر قریش مکہ کے حوصلے پست ہو گئے۔ حضرت معاذ  ؓ بن عفراء اور ان کے بھائی معوذ  ؓ نے اور ایک روایت کے مطابق معاذ بن عمروؓ بن الجموح کے ساتھ مل کر اسلام کے سب سے بڑے دشمن اور مسلمانوں کے بدخواہ ابو جہل کو جہنم رسید کر کے اس کی فرعونیت کا قلع قمع کر دیا۔ حضرت معاذ  ؓ اور ان کے بھائی معوذ  ؓ نے دوران معرکہ صحابہ کرام سے دریافت کیا کہ’’ ابو جہل کون ہے بتائیے ہم آج اسے ہمارے آقا و مولی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے رہنے اور مسلمانوں کو ستاتے رہنے کی سزا دینا چاہتے ہیں‘‘۔ابو جہل کی نشاندہی ہوتے ہی حضرت معاذ  ؓو معوذ  ؓ دونوں ابو جہل پر جھپٹ پڑے اور آناً فاناً اس کا خاتمہ کر دیا۔ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے (جو فتح مکہ میں مشرف بہ اسلام ہوے) جو اس وقت قریش کی طرف سے لڑ رہے تھے حضرت معاذ  ؓ پر تلوار سے حملہ کیا اور اس قدر شدید وار کیا کہ ان کا ہاتھ کٹ گیا لیکن تسمہ لگا رہا اس مجاہد اعظم نے نہایت بلند حوصلگی سے خود اپنے لٹکے ہوے ہاتھ کو زور دیکر علیحدہ کر دیا اور پھر مصروف جہاد ہو گئے۔ حضرت معاذ  ؓ کے والد حارث بن رفاعہ تھے اور والدہ عفراء بنت خویلد تھیں۔ وہ اہل مدینہ میں سابق الاسلام تھے بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بیعت عقبہ سے قبل مکہ مکرمہ حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوے تھے۔ حضرت معاذ  ؓ کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ دین کی تبلیغ و اشاعت کے دل سے خواہاں رہا کرتے اور اس سلسلہ میں بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہمیشہ آمادہ رہا کرتے تھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بے حد مقبول و مقرب تھے۔ حضرت معاذ  ؓ کی وفات سے متعلق مختلف روایتیں ہیں بدر میں ان پر قبیلہ رزیق کے ماعض نے حملہ کیاتھا جس کے باعث شدید زخمی ہو گئے تھے اور اسی میں وفات پائی لیکن دیگر قوی روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں حجۃ الوداع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کی سعادت بھی ملی۔ عزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا عملی مظاہرہ ان کی کتاب سیرت کا عنوان جلی بن گیا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۲۷‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ محترم الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔