حضرت کعب بن عمروؓ نے غزوہ بدر میں بہادری، حوصلہ مندی اور کار ہاے نمایاں کے ذریعہ خدمت دین کا گہرا نقش چھوڑا
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۲۶ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۱؍مئی ( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمرہ اور حج کا احرام باندھنے کے بعد ناقہ مبارک قصویٰ پر سواری فرمائی اور تلبیہ کہا۔ اسی طرح جب ناقہ مبارک کھلے میدان میں آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر تلبیہ کے الفاظ دہرائے۔ شہزادی کونین سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما علیحدہ علیحدہ ہودجوں میں سوار تھیں۔ عازمین حج کے سروں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھا۔ نمازوں کے وقت توقف کیا جاتا اور پھر یہ مبارک سفر جاری رہتا۔ آٹھ دن کے اس روح پرور سفر کے بعد یہ نورانی قافلہ مکہ مکرمہ کے قریب اس وقت پہنچا جب کہ آفتاب غروب کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاں توقف فرمایا وہ مقام ذی طویٰ تھا۔ یہاں شب بسری کے ارادہ کا سبب سفر کی تھکان کو دور کرنا تھا تا کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت تازہ دم ہو جائیں اور رب کریم کے بیت اللہ شریف کی زیارت پورے ذوق و شوق کے ساتھ ہو۔ صبح نماز فجر ذی طویٰ میں ادا کی گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غسل فرمایا اور بعد ازاں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یکشنبہ، ۴؍ ذی الحجہ ۱۰ ھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ؤ۔ جن لوگوں کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے انھوں نے عمرہ کر کے حالت احرام سے باہر آگئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حالت احرام ہی میں رہے کیوں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ اور حج کی نیت سے احرام باندھا تھا اور قربانی کے جانور بھی ساتھ لائے تھے۔ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۲۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات حجۃ الوداع پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضاحمیدی نے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر اپنا لکچر بہ زبان انگریزی پیش کیا۔ انھوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نورانی حقیقت اور آپ کے اجداد محترم میں حضرت عدنان ؑ اور حضرت معدؑ کے حالات کو اپنے لکچر میں پیش کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۵۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت کعب بن عمرو ؓکے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت کعب بن عمروؓ مدینہ منورہ کے ممتاز قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جد اعلیٰ عباد بن عمرو بن سواد تھے جن کا نسبی سلسلہ کعب بن سلمہ سے جا ملتا ہے۔ حضرت کعب بن عمروؓ کی کنیت ابو یسر تھی۔ حضرت کعب بن عمروؓ خدادا د صلاحیتوں کے مالک تھے۔ حضرت کعب بن عمروؓ کو بیعت عقبہ میں شرکت کا اعزاز ان کی نوعمری میں حاصل ہوا و نیز صرف بیس سال کی عمر میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ غزوہ بدر میں حاضر رہنے کا شرف پایا بلکہ اپنے دلیرانہ اور جراء ت مندانہ کارناموں سے بدر کے غازیوں کی توجہات سمیٹ لیں۔معرکہ حق و باطل غزوہ بدر میں اپنی بہادری، حوصلہ مندی اور مہارت حرب کے ذریعہ انھوں نے منبہ بن حجاج سہمی جیسے قوی و خطرناک جنگجو اور دشمن اسلام کو کیفر کردار تک پہنچا دیا یہ کام اس قدر سرعت، بے جگری اور کمال سے انجام دیا کہ ہر ایک حیرت زدہ رہ گیا اور باطل کے خیموں میں ہراسانی و کھلبلی سی مچ گئی۔ بنی ہاشم کی بے حد اہم شخصیت یعنی حضرت عباس بن عبد المطلبؓ کہ جو معرکہ بدر میں قریش کی طرف سے زبردستی لائے گئے تھے، میدان بدر میں حضرت کعبؓ کے ہاتھوں اسیر ہوے تھے۔ حضرت عباسؓ نہایت قوی، بلند قامت، مضبوط اور بھاری جسم والے تھے جب کہ حضرت کعبؓ ان کے مقابلہ میں قصیر القامت، نحیف الجسم تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ’’ تم نے (حضرت) عباس کو کیسے اسیر کیا ؟‘‘تو عرض کیا کہ’’ ایک ایسی ہستی نے میری مدد کی جسے میں نے کبھی دیکھا نہ تھا‘‘۔حضورانور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تحقیق ایک محترم فرشتے نے تمہاری امداد کی‘‘۔ حضرت کعبؓ نے یوم بدر مشرکین کا جھنڈا جو ابو عزیز بن عمیر کے ہاتھوں میں تھا بڑی عمدگی کے ساتھ چھین لیا تھا اوردشمن لشکرکو محروم علم کر دیا تھا ۔ ما بعد بدر تمام مشاہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ حاضری کا شرف پایا۔ صفین میں امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہٗ کے ساتھ موجود تھے۔مولائے کائناتؑ کی شہادت کے بعد حضرت کعب گوشہ نشین ہو گئے۔ حضرت کعبؓ کا قرض ایک شخص کے ذمہ تھا آپ تقاضہ کے لئے پہنچے تو اس نے گھر میں رہنے کے باوجود کہلا بھیجا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔ حضرت کعبؓ نے کہاکہ باہر آو میں نے تمہاری آواز سن لی ہے۔ جب وہ نکلا تو پوچھا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہاکہ تنگدستی کی وجہ سے اس نے ایسا کیا۔ یہ سن کر حضرت کعبؓ نے کہا کہ جائو، میں نے اپنا قرض معاف کیا ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو قرضدار کو مہلت دے یا معاف کر دے وہ قیامت کے دن اللہ کے ساے میں ہوگا۔ اس واقعہ سے حضرت کعبؓ کی سخاوت، دریا دلی، عفو درگزر اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خشنودی کے حصول کے جذبہ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ حضرت کعبؓ بے حد مالدار اور تونگر تھے اسی طرح فیاض اور کشادہ دست تھے۔ عشق الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت لازوال سے مالا مال تھے۔ مدینہ منورہ میں جن اصحاب بدر کی وفات ہوئی ان میں سب سے آخر میں وفات پانے والے حضرت کعب بن عمروؓ ہی تھے سن وفات ۵۵ھ ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۲۶‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ محترم الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔