حضرت قطبہؓ بن عامر کو مکہ آکر سب سے پہلے مشرف بہ ایمان ہونے والے چھ انصاریوں میں شامل ہونے کا اعزاز
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۲۵ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۴؍مئی ( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفر حج کی اطلاع ملتے ہی ہر جگہ سے ہزاروں طالبان حق تعالیٰ و عاشقان حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حج کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۲۵؍ذی القعدہ ۱۰ھ کو حج کے لئے مدینہ منورہ سے آغاز سفر فرمایا۔ مسجد نبوی شریف میں نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد سوئے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ شہزادی کونین خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرا علیھا السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت ملی۔ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما کو بھی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں کاشانہ نبوت کے دیگر خدام خاص بھی ساتھ ہوئے۔ جب یہ قافلہ ذو الحلیفہ پہنچا تو سب کو رک جانے کا حکم ملا۔ذو الحلیفہ ایک چشمہ کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے تقریباً نو کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔یہ اہل مدینہ کے لئے میقات ہے، یہیں سے احرام باندھ کر آگے بڑھنا لازم ہے۔ اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذوالحلیفہ ہی میں قیام فرمایا۔ مغرب، عشاء اور دوسرے دن کی فجر یہیں ادا ہوئی۔ نماز ظہر سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام کے لئے غسل فرمایا، دو چادریں احرام کی باندھیں، نماز ظہر ادا کی ۔ اس کے بعد حج و عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا اور تلبیہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب تلبیہ کہا تو ہم رکابی کا شرف پانے والے کثیر صحابہ کرام کلمات تلبیہ کو دہرا رہے تھے اور ان کی آوازوں سے سارا ماحول تلبیہ کی ایمان افروز صدائوں سے گونج رہا تھا۔ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۲۵‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میںواقعات حجۃ الوداع پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضاحمیدی نے سرکار پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر اپنا لکچر بہ زبان انگریزی پیش کیا۔ انھوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نورانی حقیقت اور آپ کے اجداد محترم میں حضرت عدنان ؑکے حالات کو اپنے لکچر میں پیش کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۴۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت قطبہ بن عامر ؓکے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت قطبہ بن عامرؓ ان چھ انصاریوں میں سے ایک تھے جنھوں نے سب سے پہلے مکہ مکرمہ آکر قبولیت ایمان کی سعادت پائی۔ علاوہ ازیں حضرت قطبہؓ بن عامر کو عقبہ کی دونوں بیعتوں میں شرکت کااعزاز حاصل ہوا۔ حضرت قطبہؓ بن عامر چوں کہ مدینہ منورہ کے قدیم الاسلام انصار میں سے تھے اس وجہ سے انھیں حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ تمام مشاہد میں رہنے اور غزوات بدرو احد و خندق میں سیف کے جوہر دکھانے کے یادگار مواقع ملے۔ غزوہ احد میں انھوں نے اس قدر پامردی اور استقامت کا مظاہرہ کیا کہ ان کے بدن پر دشمنوں سے جدال کرتے ہوے نو زخم لگے۔ قبل ازیں غزوہ بدر میں انھوں نے مخالفین کی دو صفوں کو منتشر کرنے کے لئے ایک بڑا پتھر ان کے بیچ ڈال دیا تھا اور کہا تھا کہ میرا میدان سے ہٹنے کا تصور بھی نہیں، اگر یہ پتھر بھاگ جاے تو میں بھی ہٹ جاوں گا۔ اس بات سے ان کے عامی ہمت، حوصلہ مند، جری ہونے اور اللہ کی راہ میں استقامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ غزوہ فتح عظیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں بنی سلمہ کا جھنڈا عطا فرما کر ان کے قبیلہ کی علمبرداری کے منصب سے سرفراز فرمایا تھا۔ مدینہ منورہ میں قبل ہجرت تبلیغ دین کے کام میں اپنے چھ ساتھیوں کے ہمراہ حضرت قطبہؓ بن عامر نے سرگرم حصہ لیا۔ بیعت عقبہ اولیٰ و ثانی سے قبل ہی مشرف بہ ایمان ہو جانے کے باعث یہ جس جگہ جس محفل جس مجمع میں جاتے دین اسلام کی حقانیت کے متعلق لوگوں کو بتاتے اور انھیں قبول اسلام کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ حضرت قطبہؓ بن عامر کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، دین حق اسلام سے وابستگی اور مسلمانوں کی خیرخواہی و بھلائی کے جذبات نے انہیں ایک خاص مقام و مرتبت والا بنا دیا تھا۔ وہ ذاتی طور پر بڑے شجیع و بہادر تھے اپنی اس خوبی کو اسلام و مسلمین کی خدمت کے لئے وقف کر چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں بیس آدمیوں کے ساتھ خثعم کے ایک قبیلہ کی طرف جو بتالہ کے اطراف و اکناف رہتا تھا روانہ فرمایا تھا اور پہنچتے ہی اقدام کی ہدایت فرمائی تھی۔ چنانچہ حضرت قطبہؓ نے تعمیل ارشاد کی اور ہر طرح غالب رہے۔ مواشی کی کثیر تعداد غنیمت میں ملی۔ خمس کے نکال دینے کے بعد جب غنیمت کی تقسیم عمل میں آئی توحضرت قطبہؓ کے ہمراہیوں کو فی کس چار اونٹ عطا ہوے ۔ اس وقت ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر مانا گیا تھا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت قطبہؓ بن عامر کا تعلق مدینہ کے ممتاز قبیلہ خزرج سے تھا ان کا شجرہ نسب کعب بن سلمہ خزرجی سے جا ملتا ہے۔ حضرت قطبہؓ کی کنیت ابو زید تھی۔ مدینہ منورہ کے ممتاز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ علم و فضل کے لحاظ سے بھی ممتاز تھے۔ فنون حرب سے واقف تھے یہی وجہ ہے کہ تیر انداز صحابہ میں اپنے کمال فن کی بناء پر بڑی وقعت رکھتے تھے۔ حضرت قطبہؓ کو اتباع سنت کا بڑا خیال رہا کرتا تھا۔ سرکار دو علم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس سے گہری محبت تھی ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہے ’’ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! میں آپ کے دین آپ کی سنت اور آپ کے طریقہ کو پسند کرتا ہوں‘‘۔عرب میں دستور تھا کہ جب احرام باندھ لیتے اور اگر انھیں گھروں میں جانے کی ضرورت ہوتی تو دروازے کے بجاے پچھواڑے سے جاتے اور اسے نیکی سمجھتے تھے۔ حضرت قطبہؓ پہلے شخص ہیں جو بحالت احرام گھر میں دروازے سے داخل ہوے اور اس قدیم رسم کو ترک کیا جسے ترک کرنا حکم قرآن کے عین مطابق تھا۔ حضرت قطبہؓ نے طویل عمر پائی اور عہد خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ میں وفات پائی۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۲۵‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ محترم الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔