قربا نی اطاعت حق کا نشان، اسلامی شعار ، حضرت ابراہیم ؑ کی سنت، اہل نصاب پر واجب ، تقرب الٰہی کا ذریعہ، خیر و برکا ت دائمی کی ضمانت
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے ’’۱۵۳۱ ‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس میں مذاکر ہ قربانی
پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۵؍جون( پریس نوٹ) اسلام میں قربانی کی حقیقت سب سے الگ ، خالص اللہ کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اور تقرب مولیٰ تعالیٰ کے وسیلہ کے طور پر واجب ہے جس کی اپنی ایک اعلیٰ ترین اور روحانی تاریخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد مکرم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے وابستہ ہے ۔اسلام شرک و کفر کی بیخ کنی کے لئے آیا ہے، اس نے تمام مشرکانہ طور طریق سے ا ہل حق اور ایمان والوں کو دور اور پاک و صاف رکھا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا پابند کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ عشق معبود حقیقی اللہ تعالیٰ سے معنون ہے، وہ جہاں جہاں تشریف لے جایا کرتے معبود یکتا کی بندگی کے لئے عبادت کی جگہ بناتے اور قربان گاہ قائم کرتے تھے تاکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے لئے پاک و صاف جگہ مختص رہے۔قربانی کا تصور انسانی معاشرہ میں ابتداء ہی سے موجودہے اور انسانی افکار و عقائد کے ساتھ وابستہ ہے۔ مومن اپنے خالق و معبود کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی خاطر بدنی مشقت اور مالی نذرانے پیش کرتے رہنے کا خوگر رہا ہے جسے عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قربانی مومن کے اپنے خالق و معبود پر جان و مال نچھاور کرنے کے جذبہ صحیح سے متعلق ایک خاص طریقہ بندگی ہے۔ شریعت اسلامی نے وسیع تر مفہوم میں قربانی کا حکم دیا ہے۔ ’’قرب‘‘ سے مشتق عربی لفظ ’’قربانی‘‘ کے معنی وہ چیز جس کے ذریعہ تقرب الی اللہ حاصل کیا جائے ذبیحہ ہویا کچھ اور۔ یعنی وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تصدق کی جائے بعض محققین کا کہناہے کہ ’’ہر نیک کام جس کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہونے کا ارادہ کیا جائے قربانی ہے‘‘۔ اصطلاح شریعت میں مخصوص ایام میں بہ نیت عبادت مخصوص حلال جانور ذبح کرنا قربانی ہے۔ سورہ مائدہ کی ۲۷ ویں آیت میں لفظ ’’قُرْبَانًا‘‘ ملتا ہے۔ قربان اسی سے ہے قرآن حکیم میں ’’قرباناً‘‘ کا لفظ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے درمیان ایک حساس معاملہ پر شدید اختلاف اور اس کے خاتمہ کے لئے قربانی پیش کرنے کی قرارداد و نیز اس نذر کی قبولیت کی شرط پر فیصلہ کرنے کے ضمن میں آیا ہے۔آج صبح ۱۰بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور ۱۲ بجے دن جامع مسجدمحبوب شاہی مالا کنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کے زیر اہتمام ’۱۵۳۱‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’قربانی‘‘میں ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا گیا۔ مذاکرہ کی نگرانی پروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی ۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ قربانی کا رواج حضرت آدم ؑکے زمانے سے ہے، اس وقت بھی قربانی رضا جوئی حق تعالیٰ کے وسیلہ کے طور پر بہت اہمیت رکھتی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑکی کتاب سیرت کا سب سے عظیم، مؤثر، یادگار اور ناقابل فراموش واقعہ راہ مولی میں تمام مال و اسباب حیات ہی نہیں، بلکہ عزیز از جان فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو قربان کر دینے کے لئے ان کے نرم و نازک حلقوم پر تیز چھری پھیر دینے کا ہے ۔ انسانی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد ، نادر او ر انوکھا واقعہ ہے، جس میں ایک بندہ نے عشق مولیٰ اور کمال عبدیت سے سر شار تعمیل ارشاد حق سبحانہ تعالیٰ کا ایسا مظاہرہ کیا جس پر دنیائے اطاعت آج تک دنگ ہے اور اس طرح رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کر دی۔ ادھر مالک کونین قادر مطلق نے اپنے بندہ خاص کے اس جذبہ عشق و وارفتگی، تسلیم و رضا کے انداز اور قربانی کے عملی اقدام کو شرف قبولیت بخشا اور بطور فدیہ جنت سے دنبہ بھیج کر ذبح عظیم کی تکمیل فرمادی اور حضرت اسماعیل ؑ کو بچا لیا و نیز آنے والوں کے لئے قیامت تک اس واقعہ کو بطور یادگارباقی رکھا۔ انھوں نے کہا کہ جانوروں کی قربانی کا حکم تمام ہدایت یافتہ امتوں کو تھا۔اضحیہ کے معنی قربانی اور ذبیحہ کے ہیں اسی مناسبت سے قربانی کے دن ۱۰؍ذی الحجہ کو عید الاضحی یا یوم الاضحی کہا جاتا ہے اور عید الاضحی کے بعد مزید دو دن شریعت نے قربانی کے لئے مخصوص رکھے ہیں۔ عہد قدیم میں قربانی کی قبولیت و عدم قبولیت کے بارے میں مختلف النوع تصورات اور عقیدے عام تھے۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے اپنے مقالہ میں کہا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت شریفہ تک عرب قربانی کے ضمن میں متعدد خود ساختہ طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ قربانی کو اپنے تئیں بارگاہ خداوند قدوس میں شرف قبولیت سے ہمکنار کرنے کے لئے وہ قربانی کے خون کو کعبۃ اللہ کی دیواروں پر مل دیتے اور گوشت و غیرہ کو کعبہ کی دیواروں سے لٹکا کر تصور کرتے تھے کہ اس طرح ان کی قربانیاں قبول ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے ان تمام اضافی حرکات کا ابطال کیا اور لوگوں کو قربانی کے بنیادی مقصد اور روح یعنی حکم خدا وند کریم کی بجاآوری، تسلیم و رضا اور جذبہ عشق و محبت سے واقف کروایا۔ اسلام نے نیت اور پاک ارادوں کو اہمیت دی۔انھوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے عشق و وارفتگی کا فیضان و تسلسل یہ تمام سالانہ مشروع اور واجب قربانیاں ہیں، قیامت تک توحید کے متوالے اور رسالت کے پروانے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد کریم حضرت ابراہیم ؑ کی اس سنت کو عبادت کے بطور حلال جانوروں کے قربان کرنے یعنی ذبیحہ کے ذریعہ سے قائم رکھیں گے۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ قربانی دراصل اطاعت خالق کے حقیقی جذبہ کو مضبوط کرنے اور تقویٰ و پرہیزگاری کو برقرار رکھنے کا مؤجب ہے حصول قرب حق کا بہترین وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تک قربانی کرنے والے کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ غلام،مسافر، محتاج پر قربانی واجب نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو مقبول ترین عمل قربانی ہے‘‘۔ رسول اللہ ؐنے اپنی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ۔ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے وجوب کے باعث بالواسطہ و بلا واسطہ ایک بہت بڑا طبقہ مادی آسودگی اور معاشی منفعت حاصل کرتا ہے۔ قربانی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہے لیکن اس کی ادائیگی کے باعث اللہ تعالیٰ کے لاکھوں اور کروڑوں بندے اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کر سکتے ہیں اس سے زیادہ تر ضرورت مند ،غریب، محتاج اور فقیر و مستحق فائدہ پاتے ہیں۔ ساری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان قربانیاں دیتے ہیں اور اسی طرح حج کے موقع پر منیٰ میں کی جانے والی قربانیوں کے ذریعہ جو اقتصادی عمل ہوتا ہے اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں اہل ایمان کے لئے آسودگی اور انسانوں کے ایک بڑے حصہ کی بھلائی، افادہ اور ترقی مضمر ہے۔بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ آخر میں ذکر جہری اور دعا ے سلامتی پر آئی ہرک کے۱۵۳۱ویں تاریخ اسلام کے دونوں سیشنس اور سالانہ موضوعی مذاکرہ ’’قربانی‘‘ اختتام پذیر ہوا۔جناب الحاج یوسف حمیدی نے خیر مقدم کیا اور آخر میں شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔