اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت داروں کی مودت اور محبت لازم فرما دی ہے

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۳۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 

 حیدرآباد ۔۳۰؍جولائی( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات اطہر و انور سے نسبت و تعلق بلا شبہ رب کائنات کے فضل و کرم کا نشان اور نسبت رکھنے والوں پر رحمت پروردرگار کی دلیل ہے۔ حضور خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو اللہ تعالیٰ نے خیر الامم کے اعزاز سے سرفراز فرمایا ہے او ر ان میں متقیین، صالحین، شہداء اور صدیقین کو خصوصی مراتب عطا کئے گئے ہیں اور جو ہستیاں صحبت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مالا مال ہوئیں انھیں خصوصی فضیلتوں سے بہرہ مند کر کے آسمان ہدایت کے چمکتے ہوے ستاروں سے تمثیل دی گئی۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان اقدس سے تعلق بھی رکھتے ہیں ونیز شرف ایمان سے بھی مالا مال ہوئے اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اقدس سے بھی فیضیاب ہوئے ان کے فضائل و کمالات اظہر من الشمس ہیں۔قریش کے مختلف خاندانوں کے علاوہ بنو ہاشم و بنو مطلب کو فتح مکہ سے پہلے یا بعد میں ، جلد یا بدیر سعادت ایمان نصیب ہوئی اور وہ دین و دنیا کے اعلی درجات و مراتب کے حامل ہوئے ان حضرات میں بہت ایسے خوش مقدر بھی تھے جنہیں ابتداء ہی سے یہ شرف حاصل ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت داروں سے مودت کی خصوصی ہدایت ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ منورہ رونق افروز ہوئے تو انصار نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذمہ مصارف زیادہ ہیں اور مال کم ہے۔ تب آپس میں مشورہ کیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقوق و احسانات یاد کر کے خدمت مبارکہ میں پیش کرنے کے لئے بہت سارا مال جمع کیا اور اس کو لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم!آپ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی اور ہمیں ایمان کا شرف ملا اور معبود حقیقی کی عبادت و اطاعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مصارف زیادہ ہیں اس لئے ہم یہ مال خدمت عالی میں نذر کے لئے لائے ہیں قبول فرما کر ہماری عزت افزائی کی جاے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ’’ اے محبوب ؐ!تم فرمائو میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت‘‘۔ ظاہر ہے اس ارشاد کے ذریعہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت داروں کی مودت اور محبت لازم فرما دی ہے۔ جب صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! آپ کے کون قرابت والے ہیں جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ علی ؑ و فاطمہ ؑ اور ان کے بیٹے ؑ‘‘۔ اسی طرح آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی کرم اللہ و جہہ، سیدۃ النساء العالمین شہزادیٔ کونین بی بی فاطمہ زہرا علیھا السلام، حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ ؑ اور سیدنا امام حسین ؑ کو اپنی ردائے مبارک میں لے لیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرمائی کہ’’ یا اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، تو ان سے ہر آلودگی کو دور فرما دے اور انہیں خوب پاکیزہ رکھ‘‘۔کفار مکہ کا سب سے بڑا تعنہ تھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد نرینہ نہیں ہے اس کا جواب خود حق تعالیٰ نے سورہ کوثرکے نزول سے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام انبیاء کی نسل ان کے بیٹوں سے چلی ہے اور میری نسل میری بیٹی (سیدہ بی بی فاطمہؑ) سے چلے گی۔ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۳۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں فضائل اہل بیت اطہار ؑ کے مقدس موضوع پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور امام علی زین العابدین ؑ کی سیرت مبارکہ کے منور پہلو پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین ؑکا اسم مبارک علی ہیں۔ کثرت عبادت کے سبب آپ زین العابدین اور سجاد سے ملقب ہوئے۔ ۳۸ھ میں مدینہ منورہ میں ولادت مبارک ہوئی۔ آپ کی والدہ محترمہ بی بی شہر بانو بنت شاہ ایران یزدگرد تھیں۔ امام علی زین العابدین ؑ کی عمر شریف ۵۶ سال ہوئی اور ۹۴ھ میں آپ کی وفات شریف کا واقعہ ہوا اور آپ امام حسنؑ کے مزار مبارک کے نزدیک دفن کئے گئے۔حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے وقت آپ کی عمر شریف ۲۳ سال تھی۔سانحہ کربلا اور اس کے بعد کے تمام مصائب کا بڑے صبر و استقامت کے ساتھ سامنا کیا اور آخر میں دمشق سے اہل بیت کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ مراجعت ہوئے۔حضرت امام علی زین العابدین ؑ بہت زیادہ خشیت الٰہی رکھنے والے تھے۔ ساتھ ساتھ غرباء و مساکین اور فاقہ کشوں کی اعانت و راحت رسانی کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ راتوں کے وقت روٹیوں کی بوری کے ساتھ نکلا کرتے اور اہل حاجت کے گھروں تک روٹیاں پہنچاتے۔ یہ معمول ساری زندگی رہا۔آپ بے شمار خاندانوں کی ان کی غربت و ناداری کے سبب کفالت کیا کرتے تھے۔ آپ عبادت خالق اور خدمت مخلوق میں ہمہ تن مشغول رہتے۔ ہر روز ایک ہزار رکعت نماز کی ادائیگی آپ کا معمول تھا۔عفو درگذر، عطا و بخشش، رحم و مروت اور حلم و بردباری آپ کا خاصہ تھا۔ حضرت امام حسین ؑ کی اولاد کا سلسلہ آپ ہی سے بر قرار رہا۔حضرت امام علی زین العابدین ؑ صبر و استقامت، تسلیم و رضا کے پیکر اور اپنے اجداد گرامیؑ کے اخلاق کا موثر نمونہ تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۳۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات کہے اور آخر میں شکریہ ادا کیا۔