حجۃ الوداع سے واپسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ: میں جس کا مولیٰ ہوں علی ؑ اس کے مولیٰ ہیں

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۳۳ ‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس 

پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر

 حیدرآباد ۔۹؍جولائی ( پریس نوٹ)ارکان حج کی ادائیگی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے جملہ جاں نثاروں کے ہمراہ مدینہ طیبہ کی طرف عازم سفر ہوئے اور جب یہ نورانی کارواں غدیر خم کے مقام پر پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا۔غدیرخم وہ اہم مرکزی جگہ تھی جہاں سے جزیرہ عرب کے تمام اطراف و جوانب راستے جاتے تھے۔ذی الحجہ کا مہینہ تھا، اٹھارہ تاریخ تھی اور اتوار کا دن تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضیٰ ؑ کے فضل و کمال، امانت و دیانت، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی۔ خطبہ میں بعد حمد و ثناء کے ارشاد فرمایا کہ ’’اے لوگو! ممکن ہے کہ اللہ کا فرشتہ جلد آجائے اور مجھے قبول کرنا پڑے۔ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں ایک اللہ کی کتاب جس کے اندرہدایت اور روشنی ہے۔ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو۔ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں‘‘۔ آخری جملہ کو حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ مکرر فرمایا۔اور روایتوں میں ایک فقرہ اکثر مشترک ہے ’’جس کو میں محبوب ہوں علی بھی اس کو محبوب ہونا چاہئیے، الٰہی! جو علی سے محبت رکھے اس سے تو محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے تو بھی عداوت رکھ‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین دفعہ لوگوں سے یہ سوال فرمایا کہ ’’ کیا میں تم لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ اولیٰ اور بہتر نہیں ہوں‘‘؟۔ تینوں مرتبہ صحابہ کرام نے جواب میں اس بات کی تصدیق کی اور اس کا اعتراف کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ؑ کا ہاتھ بلند کر کے ارشاد فرمایا ’’میں جس کا مولیٰ اور آقا ہوں ، علی بھی اس کے مولیٰ اور آقا ہے۔ اے اللہ جو اس(حضرت علی ؑ) کا مددگار ہو تو بھی اس کا مددگار ہو جا اور جو اس (حضرت علی ؑ) سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھیو۔ جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد فرما ، جو اس کی اعانت کرے تو بھی اس کی اعانت فرما، جو بھی اس کو رسواء کرے تو تو بھی اس کو رسواء فرما اور وہ جہاں بھی ہو حق اور صداقت کو اس کا ساتھ بنا دے‘‘۔ان حقائق کا اظہار پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۳۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میںواقعات حجۃ الوداع پر لکچرمیں کیا۔ صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضاحمیدی نے اپنے انگلش لکچر میں’’غدیر خم‘‘ اور مولائے کائنات امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہٗ کی ولایت کی تفصیلات بیان کیں۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۵۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت انھوں نے حضرت حارث بن خزمہ انصاری ؓکے احوال شریف پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت حارث بن خزمہؓ کا تعلق مدینہ منورہ کے قبیلہ خزرج کے خاندان قواقلہ سے تھا۔ حضرت حارث بن خزمہ ؓ کی کنیت ابو بشیر تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہجرت فرمانے سے کچھ عرصہ پہلے یا فوراً بعد حضرت حارث بن خزمہ دولت ایمان سے مشرف ہوئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ میں مواخاۃ قائم فرمائی تو انہیں حضرت ایاس بن بکیرؓ کا دینی بھائی بنایا ۔حضرت حارث بن خزمہؓ نے بدر و احد کے علاوہ عہد رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی تھی اور منافقین نے یہ کہنا شروع کیا کہ آپ آسمان کی تو خبریں دیتے ہیں لیکن اپنی اونٹٹی کی خبر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں وہی خبریں دیتا ہوں جو مجھے اللہ بتاتا ہے۔ جائو فلاں وادی میں وہ اونٹنی موجود ہے۔‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام اس وادی کی طرف گئے اور سب سے پہلے حضرت حارث بن خزمہؓ نے اونٹنی کو پکڑا اور بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں لے کر آئے۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ بعض توہم پرست لوگوں نے اونٹوں کے گلے میں بالوں کے پٹے ڈال رکھے ہیں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حارث بن خزمہؓ کو حکم دیا کہ تمام اونٹو ںکے گلوں سے بالوں کے پٹے اتار دیئے جائیں۔تدوین قرآن مجید کے موقع پر ’’لقد جاء کم رسول من انفسکم‘‘ کی آیت مبارکہ کی شہادت دینے ولے پہلے صحابی حضرت حارث بن خزمہؓ ہی تھے۔ حضرت حارث بن خزمہؓ ۴۰ھ میں امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہٗ کے عہد خلافت میں ۶۷ سال کی عمر میں وفات پائی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۳۳‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ محترم الحاج محمدیوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔