ام المومنین حضرت سیدہ بی بی ام سلمیٰ ؑ کے مکان میں آیت تطہیر کا نزول
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۷؍اگسٹ( پریس نوٹ) حجۃ الوداع کے موقع پر احکام دین کی تعلیم اور ان پر عمل پیرائی کی تلقین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جہاں سے اپنی رحلت شریف کا اشارہ فرما دیا تھا اور مسلمانوں کو وداع فرماتے وقت ارشاد فرمایا کہ شاید آئندہ سال میں تم میں نہ رہوں ۔ اسی بناء پر اس حج کو ’’حجۃ الوداع‘‘ سے موسوم کیا گیا۔ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی کا نزول بھی اسی طرف اشارہ تھا۔ حجۃ الوداع کے وقت منیٰ میں سورہ نصر جب نازل ہو رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جبرئیل ؑ سے فرمایا کہ گویا تم مجھے خبر دے رہے ہو کہ مجھے اس جہاں سے جانا چاہئیے۔ حضرت جبرئیل نے عرض کیا تھا کہ ’’وللاٰخرۃ خیر لک من الاولیٰ (ترجمہ) اور یقینا آپ کے لئے آخر پہلے سے بہتر ہے‘‘۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اکثر ذکر بحکم الٰہی حمد و تقدیس تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات شریف سے ایک ماہ قبل ہمیں اپنی رحلت پاک کی خبر دی اور خواص اصحاب کو در اقدس پر یاد فرمایا اور دعاء کی اور ارشاد فرمایا ’’میں تمھیں تقویٰ اور خوف خدا کی وصیت کرتا ہوں اور میں تمھیں اللہ کے غضب سے ڈراتا ہوں‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا برابر ہر سال دور فرمایا کرتے تھے لیکن اس سال دو بار جبرئیل نے قرآن مجید کا دور کیا۔ یہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحلت فرمانے کی ایک علامت تھی کہ ہر سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک میں آخری عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دو عشروں کا یعنی دسویں رمضان سے چاند رات تک کا اعتکاف کیا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورام المومنین سیدہ بی بی ام سلمہؑ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ ام المومنین حضرت سیدہ بی بی ام سلمیٰ ؑ اپنی غیر معمولی فضیلت اور علم و فہم کے باعث ازواج مطہرات میں ممتاز مقام رکھتی تھیں۔ آپ کا اصل نام ہند تھا لیکن اپنی کنیت سے معروف تھیں۔ والد ماجد کا نام ابو امیہ بن مغیرہ تھا جن کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی مخزوم سے تھا۔ابو امیہ کا اصلی نام حذیفہ تھا جو ’’زاد الراکب‘‘ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ ان کا دست سخاوت کشادہ رہا کرتا تھا وہ مکہ کے فیاض لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اکثر سفر کے موقع پر پورے قبیلہ کی کفالت کیا کرتے تھے۔انھوں نے اپنی صاحبزادی (بی بی امہ سلمہؓ)کا نکاح حضرت ابو سلمہ ؓبن عبد الاسد سے کیا تھا۔ یہ دونوں قدیم الاسلام تھے۔ حبشہ اور مدینہ منورہ دونو ںہجرتوں کی برکات ان حضرات کے حصہ میں آئیں۔ حضرت ابو سلمہؓ نے غزوہ احد میں اس قدر شدت کے ساتھ جدال کیا کہ شدید زخمی ہو گئے اور چند دنوں کی علالت کے بعد مرتبہ شہادت حاصل کیا۔ عدت کے بعد حضرت بی بی ام سلمیٰ ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آئیں اور ام المونین بنیں۔ دیگر ازواج مطہرات کی طرح آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دو چکیاں، دو مشکیزے، ایک چرمی تکیہ جس میں خرمے کی چھال بھری ہوئی تھی، عنایت فرمایا۔ حضرت ام المومنین بی بی ام سلمیٰ ؑ بڑی سلیقہ شعار، منتظم مزاج، صابرہ، شاکرہ تھیں۔ عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ ، خشیت الٰہی اور اطاعت حق تعلیٰ میں اپنی مثال آپ تھیں۔ فہم و تدبر، صبر و تحمل اور فضل و کمال میں خاص رتبہ کی حامل تھیں۔ آپ بہترین مشیر اور صائب الراے تھیں۔ چناچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ عرض کیا تھا کہ ’’آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں، باہر نکل کر خود قربانی کیجئے اور حلق کیجئے‘‘چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا ہی کیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ کا فرمان ناطق ہے اور آپ خود اس پر عمل پیرا ہیں تو سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا۔حجۃ الوداع کے موقع پر اگر چہ کہ آپ بیمار تھیں لیکن باوجود عذر صحیح کے، آپ نے اس دینی فریضہ سے پہلو تہی گوارا نہیں کی اور حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تشریف لائیں۔ اہل سیر اس بات پر متفق ہیں کہ ازواج مطہرات میں سب کے بعد حضرت ام سلمیٰ ؑ نے وفات پائی لیکن ان کی سنہ وفات میں اختلاف ہے۔آیت تطہیر آپ ہی کے مکان میں نازل ہوئی تھی۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’تم اپنی جگہ پرہو اچھی ہو‘‘۔ ام المونین حضرت ام سلمیٰ ؑنے خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہرا ؑ اور حضرت ابو سلمہؓ سے روایت کی ہے۔ آپ کو حدیث سننے کا بہت شوق تھا۔ آپ سے ’۳۷۸‘ احادیث مروی ہیں جو صحیحین اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔