حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ، خاندان رسالت کے فرد، بحر الجود اور حبشہ میں تولد ہونے والی عظیم البرکات ہستی

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۳۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 

حیدرآباد ۔۲۰؍اگسٹ( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں لشکر اسلام کو بلاد روم کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا تو لوگوں میں ایک غلام کے امیر مقرر کئے جانے پر چند باتیں ہوئیں جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سمع شریف تک پہنچیں۔ یہ باتیں طبع شریف پر گراں گزریں۔ بخار اور درد سر کے باوصف پیشانی مبارک پر پٹی باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاشانہ اقدس سے باہر رونق افروز ہوئے اور منبر شریف پر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ ’’ اے لوگو! تم اسامہ کو اپنے اوپر امیر بنائے جانے سے انحراف کر کے کیسی چہ میگوئیاں کرتے ہو؟ تم نے غزوہ موتہ میں اسامہ کے والد کے امیر بنائے جانے پر بھی باتیں بنائی تھیں۔ اللہ کی قسم! وہ امارت کے سز اوار و مستحق ہیں اور ان کے والد بھی امارت کے سزاوار و مستحق تھے۔ میرے نزدیک زید بھی لوگوں میں بہت محبوب تھے اور ان کے فرزند اسامہ بھی ان کے بعد لوگوں میں مجھے بہت محبوب ہیں۔دونوں کے ساتھ اچھا گمان ہے، اب میری یہ بات ان کے متعلق بخوبی قبول کرو ، وہ یہ ہے کہ وہ تم میں اخیار میں سے ہیں۔‘‘ اس خطبہ مبارکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر شریف سے اتر کر کاشانہ عالیہ میں تشریف لے گئے۔ اہل سیر بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ دسویں ربیع الاول شریف کا ہے اس دن جب کہ حضرت اسامہؓ دیار روم کی طرف کوچ کے لئے تیار تھے اور جو لشکر ان کے ساتھ جانے پر مامور تھا وہ جماعتیں گرو ہ درگروہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رخصت ہو کر لشکر گاہ پہنچ رہی تھیں۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزاج شریف میں بہ نسبت اور دنوں کے علالت کا اثر کچھ زیادہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرما رہے تھے کہ ’’جیش اسامہ کو روانہ کرو‘‘۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۳۹‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات ما بعد حجۃ الوداع پر لکچرمیں  ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضاحمیدی نے اپنے انگلش لکچر سیریز میں امام موسیٰ کاظم  ؑکی زندگی کے چند منور پہلو پیش کئے۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبول حضرت سیدنا عبد اللہ بن جعفر ابن ابی طالب ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ  حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ   حبش کے مہاجرین گروہ میں تولد ہونے والوں میں اولیت رکھتے ہیں۔ان کے والد حضرت جعفر طیارؓ اور والدہ اسماء بنت عمیسؓ نے مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف ہجرت اولین کی تھی جہاں حضرت عبد اللہ ؓ  تولد ہوے پھر وہاں سے حضرت عبد اللہؓ اپنے بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ منورہ آگئے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ ان کم سن صحابہ میں ممتاز تر تھے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے پناہ التفات فرمایا کرتے ۔ جس وقت حضرت جعفر طیارؓ  کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ جعفرؓ کے اہل و عیال کے لئے کھانا تیار کرو اس لئے کہ ان لوگوں کو آج ایسی خبر پہنچی ہے جو انھیں سب کاموں سے باز رکھنے والی ہے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بہ نفس نفیس حضرت جعفرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت جعفرؓ کے فرزندوں کو بلا کر ان کے سروں پر دست شفقت پھیرا۔ حضرت عبد اللہؓ  کا تعلق خاندان نبوت سے تھا ان کے والد حضرت جعفرؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے حضرت عبد اللہؓ کا نسب نامہ حضرت ابی طالب بن عبد المطلب تک پہنچتا ہے اس طرح حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا محترم حضرت عبد المطلب سے جا ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہؓ کے والد حضرت جعفرؓ  حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے حقیقی بھائی اور ان سے دس سال بڑے تھے آپ قدیم الاسلام تھے اور جن کے ذریعہ ملک حبشہ میں اسلام کی خوب اشاعت ہوئی۔ ۷ھ میں حبش سے مدینہ آے تھے تو حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیبر میں تشریف فرما تھے۔ حضرت جعفر ؓاپنے فرزند عبد اللہ ؓکے ساتھ وہیں جاکر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے فتح خیبر کی خوشی زیادہ ہے یا جعفرؓ کے آنے کی۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ بڑے سخی و کریم تھے ان کی بے پناہ سخاوت اور عطا و بخشش کے واقعات زبان زد خاص و عام ہیں کثرت سخا و کرم کے باعث حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ  کا لقب ’’بحر الجود‘‘ تھا۔ طبعیت میں بے حد بردباری اور وقار تھا۔ ہمیشہ لوگوں کی امداد و خیر خواہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ حد درجہ عبادت گزار اور متقی تھے۔ محبت الٰہی اور عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی کتاب حیات کے جلی عنوانات تھے۔ حضرت عبد اللہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہیتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات شریف کے وقت حضرت عبد اللہؓ اگر چہ کمسن تھے لیکن فیضان علوم نبویؐ سے پوری طرح مالا مال ہو چکے تھے۔ کتب احادیث میں آپ کی مرویات ملتی ہیں۔ آپ کی حیات میں ہی  آپ کے دو صاحبزادے حضرات عون ؑ و محمد ؑ کربلا معلی میں اپنے ماموں حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ حق کے لئے جام شہادت نوش کیا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ نے ۸۰ھ میں  مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ ان کے جنازہ پر بہت بڑا ازدحام تھا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ بہت نیک اور اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے جس کا ان کے تمام معاصرین کو اعتراف تھا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۳۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔