سانحہ کربلا کے بعد اہل بیت کی حفاظت ، پیغام حق اورپیغام شہادت امام حسین ؑ کی تشہیر سیدہ بی بی زینب ؑ کاعظیم کارنامہ
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۳۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۳؍اگسٹ( پریس نوٹ)حجۃ الوداع سے مراجعت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں بلاد روم کی طرف آخری سریہ روانہ کیا۔ غزوہ موتہ کے موقع پر وہاں حضرت زید بن حارثہ ؓ، حضرت جعفر ابن ابی طالبؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ یہ لشکر دوشنبہ ۲۶؍صفر المظفر ۱۱ھ کو روانہ کیا گیا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو جانے میں عجلت کا حکم دیا۔ روانگی سے قبل وہاں کی اطلاعات اور حالات کی خبر لینے کی غرض سے چند لوگوں کو مامور کیا گیا اور اس سریہ کے لئے رہبروں کا بھی تقرر ہوا۔ اگر چہ لشکر کی روانگی سے ایک روز قبل علالت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست اقدس سے علم تیار کر کے حضرت اسامہ بن زیدؓ کے حوالے کیا۔ حصرت اسامہؓ نے علم حاصل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اجازت لے کر روانہ ہوگئے۔ دربار رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ حکم عالی صادر ہو اکہ اعیان مہاجرین و انصار مثلاً حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمر ابن خطابؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓاور دیگر اکابر صحابہ بجز حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے، سب لوگ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے ہمراہ ہو جائے۔حضرت اسامہ بن زیدؓ نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ سے کچھ فاصلہ پر واقع مقام جرف میں خیمہ زنی کی تا کہ وہاں سب لوگ مجتمع ہو سکیں۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۳۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات ما بعد حجۃ الوداع پر لکچرمیں کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے امام علی ابن حسین زین العابدین علیہما السلام کی شہادت کے موقع پر آپ کو نثری خراج عقیدت پیش کیا۔بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۲‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اور سیدہ بی بی زینب ؑ بنت علی ابن ابی طالب ؑکی زندگی کے مباک احوال پیش کئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت سیدہ بی بی زینب علیہا السلام ، حضور خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسی، شہزادی کونین خاتون جنت سیدہ بی بی فاطمہ زہرہ علیہا السلام اور مولائے کائنات حیدر کرار علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی اور سبطین کریمین امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کی بہن ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت ۵ یا ۶ہجری جمادی الاول میں ہوئی۔ امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد اپنے بھتیجے یعنی امام علی زین العابدین ؑ کے ساتھ آپ نے کوفہ پھر دمشق میں اپنے خطبوں سے ابن زیاد ملعون اور یزید پلید کو لاجواب کر دیا۔ آپ نے اہل بیت کی حفاظت ہر طرح سے کی۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا کا سفر پھر بعد شہادت امام حسین علیہ السلام، پورے گھرانے کی حفاظت اور حق کے پیغام کو اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور اس کے پیغام کو آپ نے پورے عرب میں پہنچایا۔ آپ نے جو تکالیف برداشت کیں اسی وجہ سے آپ کو ’’ام المصائب‘‘ کہا جاتا تھا۔ آپ کے القاب میں ’’عاقلہ بنی ہاشم‘‘، ’’الکاملہ‘‘ اور ’’ الفاضلہ‘‘ ملتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر طیارؓ کے ساتھ آپ کا عقد ۱۷ھ میں ہوا۔ آپ کو ۴ صاحبزادے حضرات علی ؑ، عونؑ، عباسؑ اور محمد ؑ اور ایک صاحبزادی حضرت بی بی ام کلثوم ؓ ہوئیں۔ آپ کے دو صاحبزادے حضرات عون ؑ و محمد ؑ اپنے ماموں حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ حق کے لئے جام شہادت کربلا معلی ٰ میں نوش کیا۔ مولائے کائنات کے دور خلافت میں کوفہ میں آپ خواتین کے لئے کلام مجید کی تفسیر کی نشست کا اہتمام کرتی تھیں اور خود تفسیر بیان کرتی تھیں۔ آپ کا انداز تکلم اپنے والد ماجد مولائے کائنات علی المرتضیٰ ؑ جیسا تھا۔ جو سنتا وہ حیران ہو جاتا۔ شب عاشور تمام رات آپ کی عبادت کی روایت ملتی ہے۔ آپ کی وصال کی تاریخ ۱۳ یا ۱۵؍رجب۶۲ھ بتلائی گئی ہے۔ آپ کی تدفین کے تعلق سے ۳ روایتیں ملتی ہیں۔ ایک تو جنت البقی، دوسری زینبیہ دمشق اور تیسری روایت مصر کی ملتی ہے۔ دمشق اور مصر میں آپ کے روضہ بنے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے کوئی آثار ان تمام جگہوں پر ہوں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۳۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔