رسول اللہ ؐ پوری کائینات پر رحمت واقعی ہے۔ حضور ؐکے دائرہ رحمت میں انسانوں کے ساتھ تمام مخلوق ، مظاہر اور اشیاء سب شامل 

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 

حیدرآباد ۔۱۷؍سپٹمبر( پریس نوٹ)  اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور انور سید عالم احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دنیائے انسانیت کے لئے ہدایت اور تمام عالموں کے لئے رحمت بناکر جلوہ گر فرمایا۔حضور رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی  تعلیمات اقدس میں رحمت کی جھلکیاں بہر پہلو نمایاں ہیں۔ شرک و کفر ، مظاہر و اصنام پرستی ، جہل و ظلم ، جبر و استبداد ، قتل و غارتگری ، برائیوں اور بداخلاقی میں مبتلاء انسانوں کو توحید و رسالت ، یقین و توکل ، علم و عرفان، رحم و مروت ، صدق و صفا ، کردار کی بلندی اور اخلاق حسنہ سے مالا مال کردینا انسانی معاشرہ پر احسان اور انسانیت کی سب سے بڑی خیرخواہی ہے ۔رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف پیغام حق پہنچایا بلکہ خود اپنی ہدایات و تعلیمات کا عملی نمونہ ، اپنی حیات طیبہ ، سیرت مبارکہ اور اسوہ حسنہ کے ذریعہ پیش کرکے عقیدہ و اطاعت کے تمام نظری و عملی مسائل حل کردیئے۔ امن و سلامتی کے پیغمبراعظم حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے حفاظت جان و مال و عزت کا حکم اس طرح دیا کہ’’ تمہارا خون اور تمہارا مال (ایک دوسرے پر) تا قیامت حرام ہے ‘‘۔لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے جو عملی نمونہ پیش فرمایا وہ اپنے گہرے اثرات کے ساتھ صبح قیامت تک رہنمائی کرتا رہے گا ۔ نوع انسانی کی بقاء کا انحصار انسانی حیات کے انقطاع پر نہیں بلکہ انسانی جان کے تحفظ پر ہے۔ جان کی حفاظت انسانیت کا سب سے بڑا جوہر ہے ۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات رحمت اور حیات طیبہ اسی حفظ حیات کے جذبہ سے عبارت ہے ۔  جنگ و قتال کے سلسلے میں عرب کا وحشیانہ مزاج اور انسانیت سوز ظلم اور فریق مخالف کے ساتھ بدترین سلوک مثلاً رات میں حملہ ، عورتوں اور بچوں کا قتل ، مغلوب لوگوں کو زندہ جلا دینا ، لاشوں کو بے حرمت کرنا اور مقتولین کے چہروں کا مثلہ کرنا علاوہ ازیں اسیران جنگ سے نامناسب برتاؤ عام بات تھی ۔ اذن قتال کے بعد جتنے معرکہ ہوئے حضور رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ و قتال کی جابر روایات کے برخلاف مخالفین کے ساتھ مرحمانہ سلوک کو رواج دیا ۔ فوجوں کی روانگی سے قبل یہ تہدیدی حکم فرمایا کرتے کہ ’’وعدہ خلافی اور زیادتی نہ کرو۔ بچے، بوڑھے، عورت اور عبادت خانہ کے گوشہ نشینوں کو قتل نہ کرنا ، باغوں کے نزدیک نہ جانا ، درخت نہ کاٹنا اور مکانات نہ ڈھانا‘‘۔ جنگ بدر کے موقع پر پانی کا ذخیرہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا ، لیکن قریش نے جب التجاء کی تو رحمتہ للعالمین صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے عین حالت جنگ میں اپنی طرف سے دشمنوں کو پانی دے کر کمال رحمت کا جلوہ دکھایا۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں ’’پیغام رحمت‘‘ کے مقدس عنوان پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ  غلامی ، انسانی عز و شرف پر بدنما داغ اور ہزاروں سال سے معاشرہ کی رسوائی کا سبب تھی۔ حریت انسانی حقوق اور احترام آدمیت کے لئے ایک بڑا چیلینج بنی ہر نئی فکر ، تحریک اور نظریہ کو تکا کرتی تھی ۔ انسانی شرافت و عظمت کے اولین نقیب محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس قباحت کے خاتمہ کے لئے قدم اٹھایا اور خالق کونین کا یہ حکم سنا کر اس عظیم کام کا آغاز فرمایا کہ ’’غلاموں کی آزادی کے لئے زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے ‘‘ ۔انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ عہد قدیم سے طلوع اسلام تک کم و بیش دنیا کے تمام مردوں نے خودپرستی ، انا اور احساس برتری کے ماتحت عورتوں کو اپنے ظلم و جور ، قہر و غضب اور نفرت و حقارت کا نشانہ بنا رکھا ہوا تھا۔ قید و بند ، خرید و فروخت اور زندہ درگور ہونا عورت کا مقدر تھا ۔۔ لڑکی کا باپ بننا ذلت اور کسی عورت کا بیٹا کہلانا عار تھا ۔حضور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظلم و جہل اور استحصال کی شکار اس صنف نازک کو جائز انسانی حقوق اور اس کا مستحقہ مقام و رتبہ عطا کیا ۔ آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بالعموم تمام انسانیت کو اور بالخصوص اپنے متبعین کو عورت کے حقیقی موقف ، اس کی عزت و حرمت ، اس کے حقوق و واجبات سے واقف کرواکر ان کی ادائیگی کے ضمن میں حکماً پابند کردیا ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرد کو عورت کے ساتھ حسن و خوبی سے بسر کرنے ، نفقہ و سکونت اور فطری وظائف کی ادائیگی کا پابند فرمادیا ۔حضور رحمتہ للعالمین صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو بچے بہت عزیز تھے۔حضور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بچوں پر یہ شفقت و رحمت بلاامتیاز ہر کمسن کے ساتھ تھی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم رحمت میں بچوں کے لئے خصوصی باب ہے جس کا خلاصہ اس حدیث شریف میں ہے کہ ’’ جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑے کا ادب نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔حضور رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انداز کرم اور لطف عام بے مثل و بے نظیر ہے ۔حضورانور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ساری زندگی کسی سے بدلہ یا انتقام نہیں لیا بلکہ عفو و درگزر اور لطف و بخشش سے کام لیا ۔ اس ضمن میں فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کا اعلان سب سے اہم واقعہ ہے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دائرہ رحمت میں اشرف المخلوقات کے ساتھ تمام مخلوق ، مظاہر اور اشیاء سب شامل ہیں۔ حیوانات پر رحمت کا حال ان ارشادات و احکام سے ملتا ہے جو وقتاً فوقتاً ان پر مظالم اور بے رحم سلوک کے انسداد کے لئے صادر ہوتے رہے ۔ فرمایا ’’اونٹوں کے گلے میں قلاوہ نہ لٹکاؤ ، زندہ جانوروں کے بدن سے گوشت نہ اتارو اور نہ اعضاء کاٹو ، دم اور بال نہ کاٹو ، زیادہ دیر باندھ نہ رکھو ، جانوروں کی پیٹھوں کو کرسی نہ بناؤ ، جانوروں کو لڑانا جائز نہیں ، جانور کو باندھ کر تیراندازی نہ کرو ، جانوروں کے چہروں کو نہ داغو ، ان کی برداشت سے زیادہ کام نہ لو ، جانوروں کو بھوکا نہ رکھو اور ان کے منہ پر نہ مارو ‘‘۔نباتات پر رحمت کا اندازہ ان فرامین مبارکہ سے ہوتا ہے ۔ سرسبز درختوں کو اور پھل دار اشجار کو نہ کاٹو ، لشکروں کو یہ ہدایت کہ فتح کی صورت میں باغ کے قریب نہ جائیں اور جمادات پر رحمت اور ان سے تعلق خاطر کا حال اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ احد ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اسے چاہتے ہیں ‘‘۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہے آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت بصورت شفاعت رہے گی ۔ حضور انو ر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت سے انکار جہل و محرومی کی بات ہے ۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔