’’اگرچاہوں تو میں دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہوں….(مگر) میں نے اپنے رب کی ملاقات کو اختیار کر لیا ہے‘‘

رحلت شریف کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادپاک

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 

حیدرآباد ۔۱۰؍سپٹمبر( پریس نوٹ) رحلت شریف کے اشارہ کے ضمن میں جو واقعات ملتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے۔حضرت ابو موہبہؓ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آدھی رات کو مجھے بیدار کیا اور فرمایا کہ ’’مجھے حکم ہوا ہے کہ اہل بقیع کے پاس جائوں اور ان کے لئے استغفار کروں‘‘۔ پھر مجھے ہمراہ لیا اور بقیع تشریف لا کر بہت دیر تک استغفار فرماتے رہے اور ان کے لئے ایسی دعاء فرمائی کہ میں تمنا کرنے لگا کہ میں بھی ان اہل قبور میں سے ہوتا اور اس دعاء سے مشرف ہوتا۔ اس کے بعد فرمایا ’’السلام علیکم یا اہل القبور ! تمہیں وہ نعمتیں مبارک ہوں جن میں  تم صبح کرتے ہو اور جن میں تم رہتے ہو اور تم ان فتنوںسے دور ہو جن میں لوگ مبتلا ہیں اور حق تعالیٰ نے تم کو ان سے نجات دے دی اور خلاصی فرما دی ہے۔ بلاشبہ ان پر سیاہ رات کے مانند فتنے امنڈ امنڈ کر آئیں گے ان فتنوں کا آخری کنارہ پہلے سرے سے بدتر ہے‘‘۔ اس کے بعد فرمایا ’’اے ابو موہبہ! دنیا کے خزانوں کی کنجیاں مجھے پیش کی گئیں اور مجھے ان کے درمیان مخیر کیا گیا کہ اگر چاہوں تو میں دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہوں یہاں تک کہ جنت میں مراتب و درجات (عالیہ مقدسہ) پائوں یا پھر یہ کہ اپنے رب تعالیٰ سے ملاقات کروں اور اس کی طرف جانے میں جلدی کروں۔ میں نے اپنے رب سے ملاقات کو ہی اختیار کیا‘‘۔ حضرت موہبہؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! کچھ عرصہ اور دنیا میں اقامت فرمائیے، اس کے بعد جنت میں تشریف لے جائیں تا کہ آپ کی بدولت ہم بھی آسودہ رہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’نہیں اے موہبہ! میں نے اپنے رب کی ملاقات کو اختیار کر لیا ہے‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۲‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۶‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبول حضرت زید بن ارقم  ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت زید بن ارقمؓ کو کم عمری سے ہی دین حق کی خدمت کا جذبہ کامل عطا ہوا تھا۔ اگر چہ کہ آپ انصاریوں میں نو عمر تھے لیکن قبول اسلام کے لحاظ سے سبقت کا اعزاز رکھتے تھے۔حضرت زیدؓ کم عمری میں یتیم ہوجانے کی وجہ سے جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی آغوش شفقت میں نشوو نما پائی ۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی صحبت و تربیت نے بچپن ہی سے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور دین حق کی چاہت کی دولت سے نواز دیا تھا جس کا اثر ان کی نصرت دین اور حمایت حق میں نمایاں نظر آتا ہے۔آپ غزوہ احد میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن کم عمری کی وجہ سے اجازت نہیں ملی تاہم مابعد تمام غزوات مقدسہ میں آپ کو شرکت کا اعزاز ملا۔ پروفیسر حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت زید بن ارقم کی کنیت ابو عمر تھی وہ مدینہ منورہ کے مشہور قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری میں یکتاے روزگار تھے۔حضرت زید بن ارقم  ؓ کو یہ انفرادی اعزاز ملا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ارقم ؓ کی گواہی کی تصدیق قرآنی آیات کے نزول کے ذریعہ فرمائی۔ ایک موقع پر منافقین کا سردار عبد اللہ بن ابی اپنی جماعت کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازش اور بد کلامی کر رہا تھا جسے حضرت زیدؓ نے سن لیا اور بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بیان کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کو طلب کر کے اس واقعہ کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے جھوٹی قسم کھا ئی کہ اس نے ایسا نہیں کہا۔ عبد اللہ بن ابی اس الزام سے بری ہو گیا اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ حضرت زید ؓ نے جھوٹ بولا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ منافقون کی ۸ اور ۷ آیات کے نزول کے ذریعہ حضرت زید بن ارقمؓ کی تصدیق کی اور عبد اللہ بن ابی کی تکذیب فرمائی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زید ؓ کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ ’’اے زید! اللہ نے تمہاری تصدیق فرمائی‘‘۔ حضرت زید بن ارقمؓ سے کئی احادیث شریفہ مروی ہے۔ آپ علم حدیث کے سلسلہ میں بڑے محتاط تھے۔ آپ نے اپنی روایات میں غدیر خم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ بیان کیا ہے جو کتب احادیث میں موجود ہے۔ حضرت زید بن ارقم  ؓ نے بیان کیا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ وادی خم میں پہنچے تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ ’’کیا تم نہیں جانتے یا گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟ ‘‘ لوگوں نے کہا ’’بیشک‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل ہوسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کا میں ؐمولا ہوں اس کا علی ؑ مولا ہے، اے اللہ تو اس سے عداوت رکھ جو اس (علی ؑ) سے عداوت رکھے اور اسے دوست رکھ جو اسے (علی ؑ ) کو دوست رکھے‘‘۔ امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے حضرت زید بن ارقم  ؓ کو خاص محبت و مودت تھی اور آپ کا شمار مولائے کائنات ؑ کے خاص اصحاب میں ہوتا ہے۔ حضرت زیدؓ نے کوفہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور ایک روایت کے بموجب ۶۸ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت زید بن راقمؓ اتباع رسولؐ کے ضمن میں بڑے پر جوش اور مخلص تھے اور مقربان بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔