حضرت جابر بن عبد اللہؓ کی ساری زندگی اطاعت الٰہی، اتباع رسولؐ، عشق اہل بیتؑ اور اشاعت دین میں گزری

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 

  حیدرآباد ۔۳؍سپٹمبر( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے احد پر ان کی شہادت کے آٹھ سال بعد نماز پڑھی جس طرح کہ بطریق وداع کرنے کے ہوتا ہے۔ اس کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا کہ ’’میں تمہارا پیش رو ہوں اور تم پر شاہد ہوں اور تمہاری شہادت کا امانت دار ہوں اور میں تمھیں اپنے حوض پر بھی دیکھ رہا ہوں جہاں کہ میں کھڑا ہوں گا۔ بلاشبہ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں مرحمت فرمائی گئی ہیں یہ روئے زمین کے ممالک کی فتح اور ان کے خزانوں کے حصول کی بشارت ہے‘‘۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فر مایا تھا کہ ’’میں اس سے خوف نہیں رکھتا کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلاء ہوں گے لیکن میں خوف رکھتا ہوں کہ تم پر دنیا غالب آئے گی اور تم اس کے شائق ہوگے اور فتنہ میں پڑوگے اور ہلاک ہوگے جس طرح کہ وہ لوگ ہلاک ہوئے جو تم سے پہلے تھے‘‘۔ رحلت شریف کے اشارہ کے ضمن میں حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منبر شریف پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کو دو باتوں میں سے ایک کو پسند کرنے کا اختیار دیا۔ وہ یا تو دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت اور عیش و آسائش اختیار کرے یا وہ جو حق تعالیٰ کے پاس ہے آخرت کا اجر و ثواب، تو اس بندہ نے وہ چیز اختیار کی جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور دنیا کی طرف رغبت نہ کی‘‘۔ صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ کی طرف لوٹنے، جنت الماویٰ، سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے، رفیق اعلیٰ سے ملنے اور جام طہور پینے اور دائمی شادمانی پانے کا وقت بہت نزدیک آگیا ہے۔‘‘پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۶۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبول حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ دیار حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کبر سنی میں وفات پانے والے صحابی رسولؐ حضرت جابر بن عبداللہؓ تھے جن کے اٹھ جانے سے بلاد اسلامیہ میں صحابہؓ کی بابرکت جماعت سے بہت کم بزرگ باقی رہ گئے تھے۔ حضرت جابرؓ نے عمر طویل پائی تھی آپ نے ۹۴ سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ عقبہ ثانیہ میں بہت کم عمر میں اسلام لاے اور زائداز دس سال صحبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مشرف رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہؓ کو ان کے قبیلہ کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ حضرت جابرؓ کو بدر و احد کے بعد تمام غزوات میں شرکت کی سعادت ملی تھی۔ بیعت الرضوان میں بیعت کا اعزاز ملا۔ حنین اور تبوک کے معرکوں میں نمایاں خدمات انجام دیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے قرض کی ادائیگی کے ضمن میں دعاے برکت فرمائی جس کے نتیجہ میں ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھجوریں بھی بچ گئیں۔ جنگ خندق کے موقع پر برکت طعام کا معجزہ انہی کے گھر دعوت کے موقع پر رونما ہوا۔ حضرت جابربن عبداللہؓ مدینہ منورہ کے قبیلہ خزرج کے شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہیتے صحابی تھے حضرت جابرؓ کو ذات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ عشق و وارفتگی تھی۔ ساری زندگی اتباع سنت اور اشاعت علوم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ حضرت جابرؓ سے بہ کثرت احادیث مروی ہیں۔ آپ کے شاگردوں کا حلقہ بے حد وسیع تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ کو غزوئہ بدر میں لوگوں کو پانی پلانے کی خدمت ملی تھی۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے جبکہ ان کی دس بہنیں تھیں غزوہ احد میں والد کی شہادت کے بعد بہنوں کی تمام تر ذمہ داری بڑی عمدگی کے ساتھ سنبھالی۔ ان کے اس اخلاقی پہلو کی بناء پر لوگ بہت اکرام و لحاظ کیا کرتے تھے۔ حضرت جابرؓ بن عبداللہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص عنایات تھیں متعدد مواقع پر انہیں دربار رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے انعامات سے نوازا گیا۔ حضرت جابرؓ کے دادا اور والد اپنے قبیلہ کے رئیس تھے اور خود وہ مدینہ کے با اثر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔بنو سلمہ کے کئی قلعہ ان کے جد کے تحت تھے بنو حرام میں حضرت جابرؓ کا مکان دینی سرگرمیوں کا مرکز تھا انھیں علم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خوب فیض پہنچا تھا ۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت جابرؓ نفاذ شریعت اور حدود کے قائم کرنے اور لوگوں کو اس پر اخلاص کے ساتھ راغب کرنے میں بہت حساس تھے۔ جوش ایمانی کا یہ حال تھا کہ اسلام کے مقابل ہر تعلق اور امتیاز کو نظر انداز فرماتے۔ حق گوئی، راست بازی، صدق و صفا، ایفاے عہد اور مداومت عمل کے لحاظ سے حضرت جابرؓ کا مرتبہ بلندتر تھا ۔ مسلمانوں کی خیرخواہی اور ملی حمیت کا جذبہ انہیں بڑے ایثار اور عظیم قربانیوں پر مائل رکھا کرتا تھا۔ آخر عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ آثار نبویؐ سے خاص لگائو تھا۔ پیروئی سنت کا بڑا التزام تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی طوالت عمر کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی۔حضرت جابر ؓ کو اہل بیت اطہار ؑ کے ساتھ والہانہ عشق تھا۔ مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے حامیوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت جابر ؓ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے روضہ معلی کے پہلے زائر تھے۔ آپ مدینہ منورہ سے کربلا معلی کا سفر کیا اور روز اربعین کربلا پہنچے ۔ایک روایت کے مطابق آپ ہی اربعین حسینیؑ کے بانی ہے۔ آپ کی عمر شریف ۷۵ یا ۷۶ برس تھی جب آپ کربلا معلی پہنچے۔ آپ کے ساتھ عتیہ بن سعد عوفی ؒ تھے۔ آپ مزار سید الشہداء علیہ السلام پر اتنا روئے کے بے ہوش ہو گئے۔ آپ کے کربلا معلی میں روضہ سید الشہداء ؑ پر حاضری کی سنت اربعین کے موقعہ پر آج تک جاری ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔