حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی تمنائے شہادت غزوہ موتہ میں مکمل ہوئی۔ نعت گو صحابی شعراء میں منفرد مقام و مرتبہ کے حامل
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۲؍اکٹوبر( پریس نوٹ)رحلت شریف سے قبل جس طرح زیارت بقیع اور اہل بقیع کے لئے استغفار کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں اسی طرح شہدائے احد کی زیارت اور ان کے لئے دعا کرنے کے بارے میں بھی روایتیں ملتی ہیں۔ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم الٰہی ہوا کہ بقیع تشریف لے جا کر ان کے لئے دعا فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع تشریف لے گئے اور اہل بقیع کے لئے استغفار کر کے واپس تشریف لائے اور استراحت فرما ہوئے۔پھر دوسری مرتبہ حکم ہوا کہ بقیع تشریف لے جا کر بقیع والوں کے لئے استغفار فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ایسا ہی کیا۔ تیسری مرتبہ پھر یہی حکم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یونہی کیا۔ پھر حکم الٰہی ہوا کہ احد تشریف لے جاکرشہدائے احد کے لئے دعا کریں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احد تشریف لے گئے اور شہدائے احد کے حق میں دعائے خیر کی۔ جب واپس تشریف لائے اور احیاء اور اموات کے حق میں دعا سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اقدس میں درد لاحق ہوا۔ ایک روایت کے بموجب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اقدس میں درد کی ابتداء ام المومنین حضرت بی بی میمونہؓ کے گھر میں ہوئی تھی۔جب مرض نے شدت پکڑی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے اپنی ازواج مطہرات ؓ سے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ ’’یہ مشکل ہے کہ میں مرض کی حالت میں تمہارے گھروں کا پھیرا کروں اور اپنی باری کی رعایت کروں اگر تمہاری مرضی ہو تو مجھے اجازت دے دو کہ میں عائشہؓ کے گھر رہوں اور اس جگہ تم سب میری تیمارداری کرو‘‘۔ اس پر تمام ازواج مطہرات راضی ہو گئیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ام المومنین حضرت بی بی عائشہؓ کے گھر میں اقامت گزیں ہوئے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۲‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول ؐمقبول حضرت عبد داللہ بن رواحہ ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ مدینہ منورہ کے انصار صحابہ میں جو سابقین اولین میں شمار ہوتے ہیں ان میں حضرت عبداللہؓ بن رواحہ بھی شامل تھے وہ نہ صرف لکھنے پڑھنے سے واقف تھے بلکہ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ انھیں نہ صرف عقبہ کے ستر افراد میں شمولیت کا افتخار حاصل تھا بلکہ انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی ملا۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ جری، حوصلہ مند اور فن حرب کی تمام باریکیوں سے واقف تھے یہی وجہ ہے کہ غزوہ بدر میں ان کی شجاعت اور حکمت معرکہ آرائی نے بڑے کام انجام دیے ان کے کلاہ شرف میں طرئہ مزید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انھیں اہل العالیہ کی طرف غزوئہ بدر میں مسلمانوں کی نصرت کی خوش خبری سنانے کے لئے بھیجنا تھا انھوں نے الموعد میں نیابت کا شرف بھی پایا تھا۔ غزوہ احد، خندق، صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر کے بشمول عمرۃ القضاء میں شریک رہے اس موقع پر انھوں نے چند مؤثر اشعار پڑھے جس پر حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ ابن رواحہ کا کلام دشمن پر تیروں سے زیادہ سخت ہے‘‘۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کی شاعرانہ خوبیوں اور عظمت کے مظہر ان کے نعتیہ قصائد ہیں جو انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس اور مدحت میں کہے ہیں۔ انھیں خیبر کے کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لئے اکثر بھیجا جاتا تھا۔ حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ بے حد ذہین حاضر دماغ تھے اور فی البدیہہ شعر گوئی میں شہرت رکھتے تھے اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اکمل اور عاشق رسولؐ تھے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی انہیں بہت عزیز رکھتے۔ اکثر ان سے اشعار کہلواتے اور سماعت فرما کر مسکراتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متعدد مواقع پر ان کے لئے خاص دعائیں کیں۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا ہ سیرت نگاروں اور محققین نے حضرت عبدا للہؓ بن رواحہ کا اسم گرامی کاتبان نبی ؐ کی فہرست میں بھی شمار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ کا علم و فضل میں اونچا مرتبہ تھا آپ سے کئی احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ابن رواحہؓ کا تعلق مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تھا جب کہ مواخاۃ حضرت مقداد کندیؓ سے ہوئی ۔ آپ کی شہادت کا واقعہ ۸ ھ کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب موتہ کی طرف لشکر روانہ فرمایا تو حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ اگر وہ بھی شہادت پالیں تو عبد اللہ بن رواحہؓ علمبردار ہوں اور اگر وہ بھی شہید ہوں تو مسلمان آپس میں فیصلہ کر کے کسی کو بھی امیر چن لیں۔ چنانچہ حضرات زیدؓ و جعفرؓ کے بعد آپ نے پرچم اسلام سنبھالا اور نہایت پامروی کے ساتھ معرکہ آرائی کی وہ دوران جہاد گہرے زخم کھاتے رہے وہ راہ حق میں کاری ضرب کھانے کو بندگی کا نذرانہ تصور کرتے رہے وہ شہادت کے دل کی گہرائی سے آرزو مند تھے جنگ موتہ میں یہ تمنا پوری ہوئی۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اہل و عیال والے تھے تاہم آپ کی نسل آئندہ جاری نہ رہی۔ حضرت ابن رواحہؓ کی ساری زندگی محبت الٰہی، عشق رسول اور دین حق سے سچی وابستگی سے عبارت تھی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔