حضرت زید بن حارثہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی میں رہنے کو آزادی پر ترجیح دی
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۵؍اکٹوبر( پریس نوٹ) رحلت شریف سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بحکم الٰہی بقیع تشریف لے گئے اور اہل بقیع کے لئے استغفار کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان صحابہ کرام کی طرف توجہ فرمائی جو اس وقت وہاں موجود تھے اور ارشاد فرمایا کہ ’’دنیا سے گزر جانے والے تم سے بہتر تھے‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ!(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وہ ہمارے بھائی تھے ، جس طرح و ہ ایمان لائے ہم بھی اسی طرح ایمان لائے ہیں ، انھوں نے بھی انفاق کیا ہم بھی کرتے ہیں، وہ چلے گئے ہیں، ہم بھی چلے جائیں گئے۔ ان کو ہم پر فوقیت کیسی؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ دنیا سے گزر گئے ہیں اور اس دنیا میں اپنے اجر سے کچھ نہ کھایا اور جانے تم میرے بعد کیا کرو گے اور تمہارے درمیان کتنے فتنے سر اٹھائیں گے‘‘۔ ایک روایت کے بموجب ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع تشریف لے گئے اور فرمایا ’’کاش! ہم اپنے بھائیوں کو دیکھتے‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ !(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہے؟‘‘۔ ارشاد فرمایا ’’تم میرے اصحاب ہو۔ میرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں، میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ کی امت میں جو آپ کے بعد پیدا ہوں گے قیامت کے روز کس طرح پہچانے جائیں گے‘‘؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے کسی کے پاس بہت سے گھوڑے ہوں، کچھ گھوڑے سفید ہوں اور کچھ سیاہ۔ کیا تم اپنے گھوڑوں کو دوسروں سے نہ پہچانو گے؟‘‘ اور فرمایا ’’روز قیامت میرے امتی اس حال میں اٹھیں گے کہ ان کے چہرے اور منہ آثار وضو سے تاباں ہوں گے‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول ؐمقبول حضرت زید بن حارثہ ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت زید بن حارثہ ؓسبقت اسلام میں انفرادیت رکھتے تھے کہ وہ سابقون الاولون میں شمارہونے کے علاوہ آزاد کردہ مردوں میں اسلام قبول کرنے والے پہلے فرد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ایسے سرشار تھے کہ انھوں نے حضور اکرمؐ کی غلامی میں رہنے کو آزادی پر ترجیح دی۔بچپن میں ڈاکوئوں نے حضرت زید کو اٹھا لیا تھا اور عکاظ کے بازار میں حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجہ ؑ کی خدمت کے لئے خریدلیا۔ ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجۃ الکبری ؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تزوج کے بعد حضرت زیدکو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا۔جب ان کے والد اور چچا فدیہ دے کر انہیں لے جانے آئے تو حضرت زیدؓ واپس جانے کے بجائے خدمت اقدس میں رہنے کا فیصلہ کر کے ذات اطہرؐ کے ساتھ اپنے عشق و وارفتگی کا پر اثر مظاہرہ کیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حسن سلوک، شفقت و رحمت ان کے لئے ایسی نعمت بے بہا تھی جس پر ہر چیز قربان کر دینا ضروری سمجھتے تھے۔ بعثت شریف سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت زیدؓ کو بیٹا فرمایا کرتے تھے اسی وجہ سے وہ زید بن محمدؐ سے مشہور ہو گئے تھے لیکن جب یہ حکم خداوندی نازل ہوا کہ لوگوں کو ان کے والد کے نام سے پکارو تو آپ زید بن حارثہؓ سے پکارے جانے لگے۔ حضرت زیدؓ ان حضرات میں شامل تھے جنھیں لکھنے پڑھنے پر عبور حاصل تھا۔ حضرت زیدؓ خط و کتابت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زیدؓ سے ام ایمن کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہؓ تولد ہوئے۔ حضرت زیدؓ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں ہمہ وقت باریاب رہتے۔حاضر باش صحابہ میں حضرت زیدؓ کو اس وجہ سے بھی خصوصیت حاصل تھی کہ وہ خادم خاص تھے۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قدمت میں آئے، تادم زیست در رسول ؐ سے وابستہ رہے۔بڑے متقی اور قناعت پسند تھے۔ ان کے کلاہ افتخار میں یہ طرہ مزید لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کے ساتھ ان کی مواخاۃ کروائی۔ حضرت زیدؓ اپنی گونا گو خصوصیات کے باعث مہاجر و انصار صحابہ میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ نہایت شجاع اور زبردست تیر انداز تھے۔ انھوں نے غزوہ بدر و احد و خندق و خیبر میں سیف کے جوہر دکھائے۔ حدیبیہ میں موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوہ مرسیع کے موقع پر انہیں مدینہ میں نگران کار بنا کر سفر فرمایا تھا۔ حضرت زیدؓ کی جراء ت و بسالت کے باعث حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اسلامی لشکروں پر مختلف اوقات میں امیر مقرر کیا تھا۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتا یا کہ حضرت زیدؓ کے والد حارثہ تھے ان کے جد کا نام عبدود تھا مورث اعلیٰ قضاعہ سے تھے جن کا سلسلہ نسب یعرب بن قحطان تک پہنچتا ہے۔ حضرت زیدؓ پست قامت، گندم گوں اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی کنیت ابو سامہ تھی۔ایک دختر رقیہ بھی تھیں۔ غزوہ موتہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں امیر لشکر بنا کر روانہ فرمایا اور اکابر صحابہ آپ کے زیر قیادت لشکر میں موجود تھے۔ اسی غزوہ میں حضرت زید بن حارثہؓ نے شہادت پائی۔ اس وقت آپ کی عمر ۵۵ سال تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت زیدؓ کی شہادت پر بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ کی ساری زندگی اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبارت تھی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔