رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قول و قرار میں صادق ترین اور دیانت و امانت میں عظیم ترین

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۴۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۸؍اکٹوبر( پریس نوٹ) حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب ؑسے منقبول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ابو جہل لعین یہ کہتا تھا کہ ہم نہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور نہ آپ کو دروغ گو جانتے ہیں اور نہ آپ ہم سے جھوٹ بولتے ہیں لیکن ہم اسے جھٹلاتے ہیں جو دین کی باتیں آپ لے کر آئے ہیں‘‘۔وہ اور دیگر قریش حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صادق اور راست گو جانتے تھے پھر بھی جو کچھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے اس کی تصدیق کرنے کے بجائے تکذیب کرتے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ (ترجمہ) ’’(اے محبوبؐ!) ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو غم میں ڈالتی ہیں ان کی باتیں، یہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے لیکن یہ ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں‘‘ (سورہ الانعام، آیت ۳۳)۔یہ بات اس واقعہ سے بھی واضح ہوتی ہے جب کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت حق کو آشکار کرنے کے لئے صفا پر چڑھ کر قبائل قریش کو نام بنام آواز دی۔ جب سب جمع ہو گئے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آرہا ہے تو تم کو یقین آئے گا؟‘‘۔ سب نے کہا کہ ہاں کیوں کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے سنا ہے۔ تب حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تو میں کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لائو گے تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا‘‘۔ یہ سن کر قریش برہمی کے عالم میں واپس لوٹ گئے۔ منقول ہے کہ اخنس بن شریک روز بدر ابو جہل سے ملا اوراس سے کہا کہ ’’اس جگہ میرے اور تمہارے سواء کوئی نہیں ہے جو کہ ہماری باتوں کو سنے، مجھے بتائو کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) صادق ہیں یا کاذب؟‘‘ ابو جہل نے کہا کہ ’’خدا کی قسم! بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) راستی پر ہیں اور وہ صادق ہیں، ہر گز دروغ گو نہیں ہیں‘‘۔ اسی طرح ہرقل بادشاہ روم نے قریش سے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف و احوال کے بارے میں سوال کئے اور نبوت پر اس نے استدلال کیا۔ ہرقل نے دریافت کیا کہ ’’کیا تم ان میں سے تھے کہ اس مرد کو مہتم بالکذب گردانتے تھے؟‘‘ یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے دعویٔ نبوت سے پہلے ایسا جانتے تھے۔ قریش کے سرداروں نے جواب دیا کہ ’’خدا کی قسم! انھوں نے کبھی دروغ گوئی نہ کی‘‘۔ ہرقل نے کہا ’’جب یہ بات ہے تو ذات خدا پر دروغ گو کیسے بندھ سکتے ہیں‘‘۔ہرقل کی یہ بات علامات نبوت کی معرفت میں مفید ترین چیز ہے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۴۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان صدق‘‘ کے مقدس عنوان پر لکچرزمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔  انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حارث بن عامر ان شریر لوگوں میں سے تھا جو دوسروں کے سامنے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکذیب کیا کرتاتھا لیکن جب یہ گھر والوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتا تو کہتا کہ ’’خدا کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں ہیں‘‘۔ایک روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ابو جہل آیا اور مصافحہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ ’’کیا تومحمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ مصافحہ کرتے ہو؟‘‘۔ وہ کہنے لگا کہ ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پیغمبر ہیں، لیکن کیا کریں ہم عبد مناف کی اولاد کے پیروکار کب تھے‘‘۔ایک موقع پر نضر بن حارث نے قریش سے کہا کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے سامنے ہی خور دسال سے جوان ہوئے تمہارے سب کاموں میں تمہارے محبوب و پسندیدہ، قول و قرار میں تم سب سے زیادہ صادق ترین اور دیانت و امانت میں تم سب سے زیادہ عظیم ترین رہے اور جب کہ تم ان پر آثار پیری دیکھ رہے ہو اور تمہارے پاس دین و ملت کی باتیں لے کر تشریف لائے ہیں تو تم انھیں ساحر کہتے ہو۔ نہیں! خدا کی قسم! وہ ساحر نہیں ہے‘‘۔ ولید بن مغیرہ روسائے کفار قریش سے تھا اس نے بار ہا قرآن پاک سنا اور رو کر کہنے لگا یہ بشر کا کلام نہیں ہے اس کلام میں جو شیرینی اور دل نشینی ہے وہ کسی دوسرے کلام میں نہیں بے شک اس میں حلاوۃ اور طلاوۃ ہے۔ شرح میں طلاوۃ کے معنی خوبی اور دل میں اثر کرنے کے ہیں۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۴۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا ۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔