حضرت مازن بن غضوبہؓ  کوکرشماتی اندازسے ایمان لانے کی توفیق ملی

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۲۶؍نومبر( پریس نوٹ)رحلت شریف سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت فرمائی اور مہاجرین کو بھی ہدایت فرمائی کہ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کے ساتھ رہیں۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو طلب کیا اور ارشاد فرمایا کہ ’’لوگوں میں اعلان کر دو تا کہ سب جمع ہو جائیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ انھیں بھی وصیت کر دوں‘‘۔ چنانچہ مدینہ منورہ کے بازاروں گلی کوچوں میں منادی کی گئی اور تمام بڑے چھوٹے جنھوں نے یہ اعلان سنا اپنے گھروں اور دوکانوں کو یونہی چھوڑ کر نکل آئے اور اس قدر انبوہ کثیر جمع ہو گیا کہ ان سب کے لئے مسجد میںگنجائش باقی نہیں رہی۔جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ ارشادفرمایا جو نہایت بلیغ اور طویل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام احکام و شرائع اور پند و نصائح اور آداب کی تعلیم فرمائی اور خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’اے لوگو! تم سے میرے جدا ہونے کا وقت قریب آگیا ہے جس کسی کا کوئی حق مجھ پر ہووہ مجھ سے اپنا حق لے لے اور جان و مال سازوسامان جس سے چاہے اس کاقصاص لے لے‘‘۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ ’’ یا رسول اللہؐ! میرے آپ پر تین درہم ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں کسی کو نہیں جھٹلاتا اور نہ کسی کو قسم دیتا ہوں، یہ تین درہم کس سلسلہ کے ہیں؟‘‘ اس شخص نے عرض کیا کہ ’’ایک دن ایک فقیر آپ کے پاس آیا تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اسے تین درہم دے دو‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فضل بن عباسؓ سے فرمایا کہ ’’اے فضل! اسے تین درہم دے دو‘‘۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’لوگو!جس کسی کا حق ہو اسے چاہئے کہ وہ آج اپنی گردن سے اتار لے‘‘۔ اس پرایک اور شخص نے کھڑے ہو کر یہ اعتراف کیا کہ ’’میں نے تین درہم سے مال غنیمت میں خیانت کی تھی جو میری گردن پر ہے‘‘۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دریافت فرمایا ’ تو نے کیوں خیانت کی تھی؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! میں اس کا ضرورت مند تھا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے فضل! تین درہم کا اس کی طرف سے بار اتار دو‘‘۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اے لوگو! جس کسی میں کوئی ایسی صفت ہو جسے وہ جانتا ہو تو چاہئیے کہ کھڑا ہو جائے تا کہ میں اس کے لئے دعا کروں‘‘۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ’’یا رسول اللہؐ! میں کذاب اور فحش گو ہوں اور بہت سوتا ہوں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! اسے سچائی نصیب فرما اور اس کی نیند کو اس سے دور فرما جب کہ یہ بیداری چاہتا ہو‘‘۔ ایک اور شخص کھڑا ہوا اور یہ اقرار کیا کہ ’’یا رسول اللہؐ! میں کذاب اور منافق ہوں اور کوئی برائی ایسی نہیں ہے جو مجھ سے وجود میں نہ آئی ہو‘‘۔ جب لوگوں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے آپ کوکیوں رسوا کر رہا ہے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشادفرمایا کہ ’’دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی سے آسان ہے‘‘ اور دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ!اسے صدق و راستی اور ایمان نصیب فرما اور اس کے دل کو برائی سے دو رکھ اور نیکی کی طرف مائل فرما‘‘ ۔اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی قسم کی نصیحت اور موعظت اور تذکیر فرمائی۔ مزیدارشاد فرمایا کہ ’’میں تمہارے کفر و شرک میں مبتلاء ہونے سے بے خوف ہوں لیکن تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے‘‘۔اس کے بعد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاشانہ اقدس میں تشریف لے آئے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہ حضرت مازن بن غضوبہ  ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت مازن بن غضوبہؓ  قبیلہ طے سے تعلق رکھنے والے ایک ذیلی خاندان خطامہ کے فرد تھے۔ انھیں کرشماتی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت شریف، دعوت حق، نزول قرآن اور حضورانور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاتم النبیین اور رحمۃ للعلمین کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں جلوہ گری کا حال معلوم ہوا۔ زمانہ جاہلیت میں وہ مشرکانہ معاشرہ کے عقائد و اعمال کے شکار تھے۔ عمان کے ایک قصبہ میں نصب اصنام کی پرستش ان کا معمول تھا کہ ایک دفعہ یکایک انھیں بشارت ملی کہ مکہ میں نبی آخرالزماںؐ کا ظہور ہو چکا ہے ان پر ایمان لائو کہ ہدایت پا سکو ۔اس حقیقت کا اظہار خود حضرت مازنؓ بن غضوبہ نے کیا۔ وہ اس بارے میں رات دن غور و خوض کر رہے تھے کہ حجاز سے ایک شخص ان کے علاقہ میں آیا حضرت مازنؓ نے اس سے حقیقت حال دریافت کیا جب حجازی مسافر نے ساری تفصیل بیان کی کہ مکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،دین حق اسلام اور معبود حقیقی اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے  کی دعوت دے رہے ہیں تو یہ معلوم کر کے حضرت مازنؓ نے اصنام پرستی چھوڑ دی ، معبودان باطل سے کنارہ کش ہوے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری دی ۔ اپنے ماضی کی تمام برائیوں اور معصیت کا اعتراف کیا اور موجودہ فلاکت و بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے شرف ایمان پایا اور حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے طالب دعا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ انھیں عفو و بخشش سے نوازے و نیز انھوں نے معروضہ کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور خاص دعا فرمائے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اولاد نرینہ عطا فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی وہ نہ صرف یہ کہ اعمال صالحہ کے لحاظ سے ممتازہوئے بھلائیوں، خوبیوں کے پیکر بن گئے بلکہ تقویٰ و پرہیزگاری میں بے مثال بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد نرینہ سے بھی سرفراز کیا۔ حضرت مازن بن غضوبہؓ بلند پایہ شاعر بھی تھے انھوں نے اپنے بارے میں پھر ہدایت حق اور شان رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں جو اشعار کہے ارباب سیر نے انھیں نقل کیا ہے۔ عظمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، احکام دین کی پابندی کا عزم، جہادکا ارادہ اور مقصد حج کے پر اثرمضامین ان کے کلام کی زینت ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔