رسول اللہ ؐ کے ابن عم حضرت قثمؓ بن عباسؓ حسن صورت و سیرت میں یگانہ روزگار اور حق و صداقت کے علمبردار 

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۱۸؍نومبر( پریس نوٹ)زمانہ علالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کئی مرتبہ خطبہ ارشاد فرمایا اور مسلمانوں کو خصوصی ہدایات اور دعائوں سے نوازا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ اور حضرت عباس  ؓ کو بلایا اور ان کے ساتھ  باہر رونق افروز ہوئے اور مسجد میں آکر نماز پڑھائی اور ارشاد فرمایا کہ ’’ مسلمانوں! تم اللہ کی پناہ، اس کی حفاظت اور اس کی نصرت میں ہو۔ اللہ ہی تمہارا محافظ ہے،بلاشبہ میں دنیا کو چھوڑ دوں گا اور یہاں سے رحلت کر جائوں گا‘‘۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے۔ امامت کی اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ ’’بے شک انصار بمنزلہ بغچہ و صندوق (جس میں کپڑے اور قیمتی سامان رکھا جاتا ہے) کے ہیں‘‘۔ارشاد فرمایا کہ ’’میں نے انصار کی طرف ہجرت کی اور انھوں نے میرے ساتھ محبت و اخلاص اور دوستی و مروت کا برتائو کیا اور تمہارے ساتھ بھی اسی طرح پیش آئے۔ قسم ہے اس خدائے عز و جل کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں ان ے محبت رکھتا ہوں‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت شریف کے دوران انصار اپنے گھروں میں صبر و قرار سے نہ رہ سکے اور حیران و پریشان مسجد نبوی ؐ کے گر د گھومنے لگے اور کہتے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعدہمارا کیا حال ہوگا۔ جب انصار کی اس کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ اور حضرت فضل بن عباسؓ کے ساتھ مسجدنبوی شریف میں تشریف لائے  منبر شریف پر رونق افروز ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا ’’کوئی بھی نبی اپنی قوم میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہا ہے تو میں تم میں کیسے ہمیشہ ہمیشہ رہوںگا۔ اورآگاہ ہو جائوں کہ میری بازگشت اور تم سب کو حق تعالیٰ ہی کی طرف جانا ہے۔ میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ انصار کے ساتھ حسن سلوک کا برتائو کرو۔ اور میں مہاجرین کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی سے رہیں‘‘۔ اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ نصر کی تلاوت فرمائی۔زمانہ علالت کے واقعات میں واقعہ قرطاس معروف ہے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۲‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۶‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی اور ابن عم حضرت قثم بن عباس  ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ صحابی رسول اللہ ؐحضرت  قثم بن عباسؓ کئی خصوصیات سے ممتاز تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہوتے تھے۔ وہ حضرت عباس ا بن عبد المطلب ابن ہاشم ؓکے فرزند ارجمند تھے۔ ان کی والدہ ماجدہ حضرت ام الفضل لبابہؓ بنت حارث تھیں جنھیں ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجہ الکبریٰ  ؑ کے بعد عورتوں میں پہلے مشرف بہ ایمان ہونے کا اعزاز ملا۔ اس طرح مکہ مکرمہ میں ایمان لانے والی مستورات میں وہ دوسری تھیں۔ حضرت قثم بن عباس، ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقرباء میں سے تھے۔قرآن حکیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں سے مودت اور محبت کی خصوصی ہدایت ملتی ہے۔ بلا شبہ آل علی ؑ و آل عقیلؓ و آل جعفرؓ کی طرح آل عباسؓ میں حضرت قثمؓ بن عباسؓ یقیناًقرابت داران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں اور مستوجب مودت ہیں۔ حضرت قثمؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت عزیز رکھتے تھے۔پروفیسر سیدمحمدحسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت قثم بن عباسؓ کو یہ خصوصی اعزاز بھی ملا کہ آپ نے رحلت شریف کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی آخری خدمات میں حصہ لیا۔ جو خوش مقدر لوگ لہد پاک میں اترے تھے ان میں یہ بھی شامل تھے۔ حضرت قثم بن عباس ؓ  آخری شخص تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لحد اقدس سے باہر آئے۔اسی لئے حضرت قثم بن عباسؓ فرماتے تھے کہ’’ آخری شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ انور کو لحد اطہر میں دیکھا، وہ میں تھا‘‘۔ حضرت قثم بن عباسؓ بہ عہد خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ مکہ مکرمہ کے عامل مقرر کئے گئے تھے اور حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کی شہادت تک اپنے اس منصب پر برقرار رہے۔ بعد ازاں حضرت قثم بن عباسؓ  سمرقند چلے گئے تھے جہاں آپ کی شہادت کا سانحہ ہوا۔ حضرت قثمؓ کے خصائص مبارکہ میں یہ حقیقت نمایاں ہے کہ آپ حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت میں بھی یکتائے روزگار تھے۔ کثرت سے عبادت کیا کرتے ۔ قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ خاص شغف تھا۔ بڑے سخی اور دریا دل تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۲‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔