حضرت خباب بن ارتؓ کو چھٹویں مسلمان ہونے کا شرف و افتخار، غزوات میں شرکت کا اعزاز
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۲؍نومبر( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی نا سازیٔ مزاج کے دوران شہزادی کونین حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہرا علیھا السلام کو بلایا۔ جب وہ حاضر ہوئی تو انھیں اپنے پاس بٹھایا۔ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ جب اپنی صاحبزادی شہزادیٔ کونین خاتون جنت سیدہ بی بی فاطمہؑ آپ کے پاس حاضر ہوتیں تو آپ اٹھ کر استقبال کرتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔ اِس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ بی بی فاطمہ ؑ کے کان میں کچھ فرمایا جسے سن کر سیدہ بی بی فاطمہؑ رونے لگیں، اس کے بعد کان میں کچھ اور فرمایا تو سیدہ بی بی فاطمہ ؑ خوش ہو کر مسکرانے لگیں ۔ ام المومنین حضرت بی بی عائشہ ؓ نے اس کا سبب دریافت کیا تو شہزادی کونین ؑ نے فرمایا کہ ’’یہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان کی بات ہے میں اسے ظاہر نہیں کر سکتی‘‘۔ حضرت سیدہ بی بی فاطمہ ؑ نے اس بات کو ظاہر نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جہاں سے رحلت کیا۔ بعد میں جب حضرت بی بی عائشہ ؓنے پھر دریافت کیا کہ وہ بات کیا تھیں ، اس وقت سیدہ بی بی فاطمہؑ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی مرتبہ فرمایا کہ’’جبرئیل ہر سال ایک مرتبہ آکر میرے ساتھ قرآن کا ورد کیا کرتے تھے لیکن اس سال دو مرتبہ دور کیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ میری اجل قریب آگئی ہے‘‘۔ شہزادیٔ کونین حضرت سیدہ بی بی فاطمہ ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ سن کر میں رونے لگی‘‘۔ دوسری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ’’میری اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھ سےملوگی‘‘۔ اس پرمیں خوش ہو کرمسکرانے لگی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کیا تمھیں پسند نہیں کہ تم جنتی عورتوں کی سردار ہو؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات شریف کے کچھ ماہ بعد اہل بیت ؑ میں سب سے پہلے سیدہ بی بی فاطمہ علیھا السلام کی وفات شریف ہوئی۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول ؐمقبول حضرت خباب بن ارت ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ صحابی رسول اللہ ؐحضرت خباب بن ارتؓ نے اسلام قبول کرنے کے ضمن میں جابرین قریش کی شدید سختیوں اور بے حد ایذاء رسانیوں کو صبر و استقلال اور عزم و حوصلہ کے ساتھ سہا،طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کیں، سب کچھ گوارا کیا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستے سے سر مو ہٹنا گوارا نہیں کیا۔حضرت خبابؓ اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں میں خصوصیت رکھتے تھے۔ انھیں چھٹے مسلمان ہونے کا اعزاز و افتخار حاصل تھا۔ حضرت خبابؓ کے دادا جندلہ بن سعد تھے وہ تمیمی تھے بعض لوگ انھی خزاعی بھی کہتے ہیں۔ حضرت خبابؓ کی کنیت ابو عبد اللہ، ابو محمد اور ابو یحییٰ تھی۔ زمانہ جاہلیت میں انھیں گرفتار کر کے غلام بنایا گیا اور مکہ لا کر بیچا گیا تھا۔ان کی مالکہ ام انمار تھیں جن کے حلیف بنو زہرہ تھے۔ حضرت خبابؓ ان مظلوموں میں سے تھے جنھیں قریش نے بے پناہ ستایا ۔ انھیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں لٹایا جاتا اور ترک اسلام پر شدت سے اصرار کیا جاتا۔ جب آپ نے مسلسل انکار کیا اور ایمان پر قائم رہے تو لوگو نے ان کی پیٹھ پر گرم گرم پتھر رکھے یہاں تک کہ ان کی پشت کی ہڈیوں پر سے گوشت جاتا رہا اس کے باوجود ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری رہا۔ان کی مالکہ ام انمار ان کے سر پر لوہے کی گرم سلاخ رکھ دیتیں لیکن حضرت خبابؓ اف تک نہ کہتے محبت خدا و رسولؐ میں ہر امتحان میں سرخ رو رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی کہ’’ اے اللہ! خباب کی مدد فرما‘‘۔ چنانچہ یوں ہوا کہ ان کی مالکہ کے سر میں کوئی بیماری ہوئی تو اس کا علاج بتایا گیا کہ سر میںداغ دلوالے۔ چناںچہ خود ام انمار کے کہنے پر حضرت خبابؓ اس کے سر پر لوہے کی گرم سلاخ رکھ دیتے تھے۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت خبابؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے پناہ عشق تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہر بات اور ہرسنت پر عمل پیرائی ان کا شیوہ تھا۔ دین حق کے لئے ہر چیز قربان کر دینا اولین فریضہ جانتے تھے۔ بدر و احد اور جملہ مشاہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی عزت پائی۔ حضرت خبابؓ لوہے کا کام کیا کرتے تھے ابتداء میں بہت غریب تھے بعد میں اپنی محنت سے خوب کمایا لیکن قریش نے ان کا سب کچھ چھین لیا تھا۔ ہجرت کی سعادت پائی۔ مدینہ منورہ میں حضرت خراش بن صمہؓ سے رشتہ اخوت قائم ہوا۔ حضرت خبابؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فیضیاب ہونے کا بہت موقع ملا اسی وجہ سے ان کے جواہر اخلاق بہت چمکے۔ دین کے لئے قربانیوں، علم و فضل اور خصائل حمیدہ کے باعث معاصرین میں منفرد تھے۔ سب ان کا بڑا اکرام و لحاظ کیا کرتے تھے۔ کتب احادیث میں آپ کی مرویات ملتی ہیں۔ عمر طویل پائی۔ آخر زمانہ میں کوفہ میں سکونت پذیر ہو گئے تھے اور وہیں ۳۷ھ میںوفات پائی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔