رسول اللہ ؐ کے آزاد کردہ صحابی حضرت ابو رافع فضل و کمال میں منفرد۔ آزادی کے بعد بھی حضور اقدسؐ کی ہمہ وقت خدمت کا اعزاز

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۵؍نومبر( پریس نوٹ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بلاشبہ جس طرح ان (انبیاء علیہم السلام) کی مصیبتیں دونی ہیں اسی طرح ان کا اجر بھی دونا ہے اور یہ کہ حق تعالیٰ نے بعض انبیاء ؑ کو فقر و درویشی میں اس حد تک مبتلا فرمایا کہ انھیں بجز ایک عبا کے دوسرا لباس تک میسر نہ ہوا۔ روایتوں میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام مرضوں میں رب تعالیٰ سے صحت و شفاء کی دعاء مانگا کرتے تھے لیکن اس مرض میں جس میں حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات شریف ہوئی، کوئی (دعاء شفاء کے لئے) نہ فرمائی بلکہ حضور انورؐ نے اپنے آپ پرسختی فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے جب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس عالم میں رہنے یا اس جہا ں سے جانے کے درمیان اختیار دیا تو حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عالم آخرت کو پسند کیا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ اس علالت کے زمانے میں بارگاہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے پاس سے آئے اور پیغام پہنچایا کہ ’’ حق تعالیٰ آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں شفاء دے دوں اور اس مرض سے نجات دے دوں اور اگر آپ چاہیں تو آپ کو اس(مرض) میں وفات دے دو ں۔ مستغرق دریائے رحمت حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں نے یہی چاہا کہ رفیق اعلیٰ سے ملوں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ناسازیٔ مزاج کی ابتداء اواخر صفر میں ہوئی۔ ایک روایت میں ہیں کہ کہ چہارشنبہ کا دن تھا ۔مدت کے سلسلہ میں اہل سیر کا اختلا ف ہے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۴‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول ؐمقبول حضرت ابو رافع  ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ابو رافع  ؓ ان خوش مقدر اصحاب میں شامل تھے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی میں رہنے کا شر ف حاصل ہوا اور حضورؐ نے انھیں آزاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے انھیں اپنے خاندان والوں میں شمار کر کے ان کی کلاہ افتخار میں طرہ مزید لگایا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنو مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ کی اصولی کے لئے بھیجا ۔ اس شخص نے ابو رافع  ؓ سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو تا کہ تم بھی اس میں سے حصہ پا سکو۔ حضرت ابو رافع  ؓ نے انکار کر دیا اور بارگاہ رسالت پناہی ؐ میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں۔ حضرت ابو رافع  ؓ ابتداء میں حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ کے غلا م تھے او ر بعد میں حضرت عباس ؓ نے حضرت ابو را فع  ؓ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے دیا اور حضور انور ؐ نے حضرت عباسؓ کے اعلان اسلام کی مسرت میں ابو رافع  ؓ کو آزاد کر دیا۔ سیر نگاروں نے حضرت ابو رافع  ؓ کا نام اسلم، ابراہیم یا ثابت اور کنیت ابو رافع بتایا ہے ۔آپ قبطی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت ابورافع  ؓ تبلیغ واشاعت اسلام کے ابتدائی دور میں دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے لیکن غزوہ بدر تک اعلان اسلام نہیں کیا۔ انھیں بھی قریش کے ظلم و استبداد کا سامنا کرنا پڑا۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر جس وقت مکہ پہنچی اس وقت حضرت ابو رافع  ؓ  جو ابھی حضرت عباس ؓ کے غلام تھے،زمزم کے حجرے میں بیٹھے تیر کے دسستے بنا رہے تھے۔دوسری جانب قریش کے سردار جنگ بدر کے حالات بیان کر رہے تھے کہ ’’وہ لوگ (مسلمان) جس طرح چاہتے تھے ہمارے شانوں سے سر اتار لیتے تھے اور جسے چاہتے پکڑ کر قید کر لیتے تھے۔ اس کے باوجود ان لوگوں پر ملامت نہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ سامنے گورے گورے لوگوں سے جو ابلق گھوڑں پر سوار تھے، ہمارا مقابلہ تھا ، وہ کسی چیز کو نہیں چھوڑتے تھے‘‘۔ یہ سن کر حضرت ابو رافع  ؓ سے ضبط نہ ہو سکا اور انہوں نے خیمہ کا کنارہ اٹھا کر بے ساختہ کہا کہ ’’واللہ! وہ فرشتے تھے‘‘۔ یہ سنتے ہی قریش کے سردار حضرت ابو رافع  ؓ پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ آپ کے سینہ پر سوار ہو کر مارنے لگے۔ حضرت عباس بن عبد المطلبؓ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی ام الفضل ؓ کے سختی سے روکنے پر قریش نے حضرت ابو رافع ؓکو چھوڑا۔ بدر کے بعد حضرت ابو رافع  ؓ مدینہ منورہ ہجرت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔ آزاد کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابورافع  ؓ کا نکاح حضرت سلمیٰ ؓ سے کیا جو حضور اقدسؐ کی آزاد کردہ باندھی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی ابن ابنی طالب ؑ کی امارت میں یمن کی طرف سریہ بھیجا تو اس سریہ میں حضرت ابو رافع ؓبھی ساتھ تھے۔ حضرت سیدنا علی ؑ نے ایک مرتبہ اپنی عدم موجودگی میں حضرت ابو رافع  ؓکو سریہ کی نگرانی سپرد کی۔ مولائے کائنات امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ  کے دور خلافت میں آپ کوفہ آ گئے ۔ حضرت سیدنا علی ؑ  نے حضرت ابو رافع  ؓ کو کوفہ کا خازن مقرر کیا ۔ آپ کا وصال عہد خلافت امیر المومنین سیدنا علی ؑ میں ہوا۔ اس ضمن میں دوسری روایتیں بھی ملتی ہیں کہ شہادت امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ کے بعد آپ سیدنا امام حسن مجتبیٰ  ؑ کے ساتھ کوفہ سے مدینہ منورہ آگئے اور بعد میں وفات پائی۔حضرت ابو رافع ؓ سے کئی احادیث مروی ہیں جو صحاہ ستہ اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا  کہ غلامی سے آزادی کے وقت حضرت ابو رافع  ؓ کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو گئی۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ آزادی کے وقت رونا کیسا؟ آپ نے فرمایا کہ آج سے ایک اجر جاتا رہا۔ اگر چہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو رافع ؓ کوآزاد کر دیا تھا لیکن آزادی کے بعد بھی حضرت ابو رافع  ؓ سے آستانہ نبویہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت گزاری کا فخر نہیں چھوٹا۔سفر و حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔کبھی کبھی آپ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کھانا بھی پکاتے۔ سفر میں حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیمہ آپ ہی نصب کرتے تھے۔ آپ کو معمولات نبوی ؐ کے متعلق بہت معلومات تھے اور ان کے بارے میں اکابر صحابہ آپ سے استفادہ کرتے تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۰‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔