غسل شریف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے جسم اقدس پر جمع پانی کو پینے کا مولائے کائنات ؑ کو شرف
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۴؍ڈسمبر( پریس نوٹ) رحلت شریف سے قبل زمانہ علالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’مجھے میری اہل بیت کے مرد حضرات غسل دیں‘‘۔ چنانچہ رحلت شریف کے بعد حضر ت سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ، حضرت عباس بن عبد المطلبؓ اور آپ کے فرزندان حضرات فضلؓ و قثمؓ اور حضور ؐ کے غلام جو اہل بیت کا حکم رکھتے تھے، اس مبارک کام کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ حجرہ مبارک کا دروازہ غیر اہل بیت پر اس وقت بند کر دیا جائے۔غسل شریف کے لئے کلہ پر یمنی چادر کو باندھا گیا( چاروں طرف چادر تاننے کو کلہ کہتے ہیں)۔اس کے بعد ان سب پر اور دیگر تمام لوگوں پر جو کہ ہجرہ شریف میں موجود تھے اور کلہ کے باہر تھے اونگھ طاری ہو ئی۔ کسی منادی نے اطلاع کی کہ غسل نہ دو کیونکہ اللہ کے نبی اس سے پاک ہیں اور انھیں غسل کی حاجت نہیں ہے۔ہر چند کہنے والے کو تلاش کیا گیا مگر معلوم نہ ہو سکا اور سب نے چاہا بھی کہ ایسا ہی کریں اور غسل نہ دیں۔ مگر حضرت عباسؓ نے کہا کہ ’’ایسی آواز کی بناء پر جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے کہ کہاں سے آئی ہے، غسل کو ترک نہیں کر سکتے‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا۔ غسل شریف کے دوران حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی زبان مبارک پر یہ جاری تھا ’’یابی دامی طیبا حیا و میتا‘‘ یعنی میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں،آپ زندگی میں بھی طیب وپاکیزہ تھے اور وصال کے بعد بھی طیب و پاکیزہ ہیں‘‘۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غسل شریف کے لئے پانی غرس نامی کنویں سے لایا گیا تھا جو قباء کے قریب تھا۔مروی ہے کہ غسل شریف کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم اقدس پر کچھ پانی جمع تھاجسے حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ نے اپنی زبان مبارک سے اٹھایا اور پی لیا۔ حضرت علی ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے مجھ میں علم کی کثرت اور حافظہ کی قوت زیادہ ہے۔ جب غسل شریف مکمل ہو گیا تو مقام سجدہ اور مفاصل شریف کو خوشبو سے معطر کیا گیا۔ مروی ہے کہ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ نے کسی قدر مشک اور عطر اپنے فرزندوں ؑ کے سپرد کیا اور وصیت کی کہ اس کو میرے کفن میں لگانا کیوں کہ یہ خوشبو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے حنوط سے بچائی ہوئی ہے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۸۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت عرباض بن ساریہ ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ صحابہ کرام میں اگر چہ کہ ہر ایک عشق الٰہی اورمحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دولت سے بہرہ مند ، عبادت و ریاضت میں مشغول اور رضاے حق کا سچا طالب تھا تاہم بعض حضرات مال و متاع دنیا سے بے نیاز، اہل و عیال اور اسباب و اموال سے الگ، خریدو فروخت اور امور دنیا سے فارغ، ہمہ وقت یاد الٰہی اور دربار رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں شب و روز کی حاضری کا شرف رکھتے تھے اور یہ سب اصحاب صفہ سے معروف تھے ان میں سے ایک حضرت عرباض بن ساریہ سلمیؓ بھی تھے جن کی کنیت ابو نجیح تھی۔ آپ بہت رقیق القلب تھے شوق و خوف الٰہی سے ان کی کتاب حیات تابناک تھی۔ عباد ت و زہد میں یگانہ اور علم و فضل میں بلند رتبہ کے حامل تھے کتب حدیث میں ان کی مرویات ملتی ہیں۔ حضرت عرباض بن ساریہؓ ان حضرات میں شامل تھے جن کے پاس غزوہ تبوک میں شرکت کے لے نہ سواری تھی نہ زاد راہ اور نہ بیت المال میں اتنی گنجائش کہ ان کی سواریوں کا بندوبست کیا جاسکے لہذا صدمہ سے ان سب کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے تب ان کے حق میں ایک آیت مبارکہ اتری۔ ارباب سیر نے ان رونے والوں کی تعداد سات بتائی ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جمعہ کے دن اہل صفہ کے پاس تشریف لاتے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی نوید اور فارس و روم کی فتح کی خوش خبری سے نوازتے۔ حضرت عرباض بن ساریہؓ سے برکت طعام کے مشہور معجزہ کی تفصیلات بھی مروی ہے کہ کس طرح چند چھواروں سے متعدد مرتبہ کئی لوگ شکم سیر ہوئے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر اپنادست اقدس رکھ کربرکت کی دعا فرمائی تھی آخرکارجتنے چھوارے تھے وہ جوں کے توں باقی رہے۔ جماعت صحابہ میں حضرت عرباض بن ساریہؓ بہت ضعیف تھے آپ نے شام میں سکونت اختیار کی تھی وہیں ۷۵ہجری میں وفات ہوئی۔ حمص میں آپ کا مزار موجود ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔