تمام انبیاء ؑ اور ان کی امتوں پر جنت اس وقت تک کہ نہ کھلے گی جب تک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی امت اس میں داخل نہ  ہو جائے

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۱۷؍ڈسمبر( پریس نوٹ) رحلت شریف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ملک الموت ایک اعرابی کی صورت میں آئے اور اذن طلب کیا۔ بعدازاں کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام بھیجتا ہے اور مجھے حکم فرمایا ہے کہ آپ کی اجازت سے آپ کی روح پاک کو قبض کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اے ملک الموت! اس وقت تک میری روح قبض نہ کرو جب تک کہ میرے بھائی جبرئیل آ نہ جائے‘‘۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل ؑ روتے ہوئے آئے اور کہا کہ ’’ یا رسول اللہؐ! بشارت ہو کہ میں حق تعالیٰ کی جانب سے ایک خبر لایا ہوں وہ یہ کہ داروغہ دوزخ کو حکم دیا گیا ہے کہ میرے حبیبؐ کی روح مطہر آسمان پر آ رہی ہے آتش دوزخ کو سرد کر دو۔ اور حورعین کو وحی فرمائی کہ خود کو آراستہ و پیراستہ کریں۔اور فرشتو ں کو حکم دیا ہے کہ اٹھو صف در صف کھڑے ہو کر روح محمدیؐ کا استقبال کرو اور مجھے حکم ہوا ہے کہ زمین پر جائو اور میرے حبیبؐ کو بتائو کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام انبیاء ؑ اور ان کی امتوں پر جنت اس وقت تک کہ نہ کھلے گی جب تک کہ میرا حبیبؐ اور ان کی امت اس میں داخل نہ ہو جائے اور کل قیامت کے دن آپ کی امت کی بابت آپ کو اتنا دیا جائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اے ملک الموت! آئو جو تمھیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرو‘‘۔ پھر ملک الموت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح اطہر کو اعلی علّیین لے گئے اور کہا ’’یا محمداہؐ‘‘۔ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ میں آسمان کی جانب سے فرشتوں کی ’وامحمدہؐ‘‘ کی آواز سنتا تھا۔رحلت شریف کے بعد شہزادیٔ کونین خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہرا ؑ نے از حد گریہ و زاری کی اور فرمایا ’’آپ ؐ نے حق تعالیٰ کے بلاوے کوقبول فرمایا، آپؐ نے جنت الفردوس میں اقامت فرمائی۔ اے اللہ! فاطمہ کی روح کو حضور اکرمؐ کی روح سے ملا۔ اے اللہ! مجھے اپنے رسولؐ کا دیدار نصیب فرما۔ اے اللہ! اپنے حبیبؐ کے ثواب سے دور نہ فرما اور روز قیامت اپنے محبوبؐ کی شفاعت سے محروم نہ کرنا‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت شریف کے بعد خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہراؑ کو کبھی کسی نے ہنستے نہ دیکھا‘‘۔ام المومنین حضرت بی بی ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ ’’جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی میں نے اپنا ہاتھ حضور ؐ کے سینہ اقدس پر رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد کئی جمعہ گزر گئے میں کھانا کھاتی، وضو کرتی مگر میرے ہاتھ سے اس دن کی خوشبو نہ گئی‘‘۔ام المومنین حضرت بی بی عائشہؓ سے منقول ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح پاک جسد مطہر سے جدا ہوئی تو میں نے آپ سے ایسی خوشبو سونگھی کہ اس سے پہلے ایسی خوشبو میں نے کہیں اور نہ پائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسل کی وفات شریف کے غم میں صحابہ کرام سراسیمہ اور پریشان ہو گئے جیسے ان کی عقلیں سلب کر لی گئی ہوں اور ان کے حواس معطل ہو گئے ہوں۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۶‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۸۰‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت صعصعہ بن ناجیہؓ کا تعلق بنو تمیم سے تھا وہ اپنے قبیلہ کے ساتھ دربار رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے تھے اور جب ان کے سامنے اسلام پیش کیا گیا تو انھوں نے بہ دل و جان قبول کر لیا ۔وہ ابتداء ہی سے جستجوئے حق اور طالب خیر تھے ۔ انھوں نے قبول اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بات پوچھی تھی کہ ’’یا رسول اللہؐ! قبل ازیں مجھ سے جو اچھے کام ہوئے کیا ان کا اجر پائوں گا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ’’تم نے کیا نیک کام کئے؟‘‘۔ انھوں نے عرض کیا کہ ’’ایک بار میری کھوئی ہوئی اونٹنیوں کو ڈھونڈنے کے سلسلہ میں میں نے ایک جگہ دو مکان دیکھے ان میں سے ایک مکان میں گیا تو ایک ضعیف شخص کو دیکھا۔ میں اس سے محو گفتگو تھا کہ ایک عورت کی آواز آئی کہ مجھے لڑکی تولد ہوئی ہے۔ اس بوڑھے آدمی نے جواباًحکم دیا کہ اسے دفن کر دو۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ اسے دفن نہ کرو اگر تم چاہو تو میں قیمتاً اسے خرید لیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اس نومولود لڑکی کو بہ عوض دو اونٹنیوں اور ایک اونٹ مول لیا اسی طرح مابعد میں نے ۳۶۰ زندہ در گور کی جانے والی لڑکیوں کو فی کس دو اونٹنیوں اور ایک اونٹ کے عوض مول لے کر ان کی بحفاظت تمام پرورش کرتا رہا ہوں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’سب سے بڑی نیکی تو اسلام ہے جو تم نے حاصل کی ہے اس نیکی کے باعث اللہ تعالیٰ تمہاری ہر نیکی کا ضرور اجر و ثواب عطا فرمائے گا‘‘۔ یہ نوید رحمت سن کر حضرت صعصعہ بن ناجیہؓ کی مسرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔ انھوں نے حصور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیات قرآن کی تعلیم پائی۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت صعصعہ بن ناجیہؓ کے فرزند غالب تھے جن کے بیٹے مشہور شاعر فرزوق تھے۔ حضرت اقرع بن حابسؓ حضرت صعصعہؓ کے چچازاد بھائی تھے۔ حضرت صعصعہؓ فطرتاً بڑے سعید تھے ان کی سخاوت، فیاضی، رحمدلی اور انسانی خدمت کے جذبہ سے غرباء و مساکین، محتاجوں اور حقیقی ضرورت مندوں کو ہمیشہ فائدہ پہنچتا رہا۔ وہ یتامیٰ، ضعیفوں ، بیماروں اور مسافروں پر خوب خرچ کرتے رہتے تھے۔ فیاض ازل نے انھیں خوب نوازا تھا وہ اس میں سے اپنی ضروریات کی حد تک رکھ کر مابقی بے اندازہ مال و دولت راہ خدا میں خرچ کر دیتے تھے۔ ارباب سیرنے ان کی وفات کی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے معمولات خیر میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ ہمیشہ رضاے حق تعالیٰ اور خوشنودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل سے طالب و متمنی رہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۶‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔