حضور اقدس ؐ نے رحلت شریف سے پہلے ارشاد فرمایا ’’اے علی! تم ان اشخاص میں پہلے ہو جو حوض کوثر پر مجھ سے ملوگے‘‘۔

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۱۰؍ڈسمبر( پریس نوٹ)رحلت شریف سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہزادیٔ کونین سیدۃ النساء للعٰلمین سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام سے ارشاد فرمایا کہ ’’اپنے بچوں کو بلائو‘‘۔ سیدہ بی بی فاطمہ زہرا ؑ حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام اور سیدنا اما م حسین علیہ السلام کو سامنے لائیں۔ جب ان صاحبزدگان نے سب کو اس حال میں دیکھا تو رونے لگے اور اتنی گریہ وزاری کی کہ ان کے گریہ سے گھر کا ہر فرد رونے لگا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بوسہ دیا اور ان کی تعظیم و توقیر ار اور ان سے محبت کے بارے میں صحابہ کرام اور تمام امت کو وصیت فرمائی۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش مبارک میں رو رہے تھے۔ جب ان کے رونے کی آواز حضورؐ کے گوش مبارک میں پہنچی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رونے لگے۔ جب ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ ’’یا رسول اللہؐ! آپ تو گزشتہ و آئندہ ہر حالت میں مغفور ہیں، گریہ فرمانے کی وجہ کیا ہے‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ میرا روناامت پر رحم و شفقت کے لئے ہے کہ میرے بعد ان کا حال کیا سے کیا ہوگا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات سے بھی گفتگوفرمائی اور ان کو وصیت فرمائی۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میرے بھائی علی ؑ کو بلائو‘‘۔ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ تشریف لائے اور سرہانے بیٹھ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے سر مبارک کو ان کے زانو پر رکھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’ا ے علی! فلاں یہودی کے چند درہم میرے ذمہ ہیں جسے لشکر اسامہ کی تیاری کے لئے قرض لئے تھے۔ اس کے حق کو میری طرف سے تم اتارنا‘‘ اور فرمایا ’’اے علی! تم ان اشخاص میں پہلے ہو جو حوض کوثر پر مجھ سے ملوگے اور میرے بعد بہت سی ناگوار باتیں تمہیں پیش آئیں گی تمہیں لازم ہے کہ دل تنگ نہ ہونا اور صبر کرنا اور جب تم دیکھو کہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں تو تم آخرت کو اختیار کرنا‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۵‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت خلاد بن سوید ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت خلاد بن سویدؓ انصار مدینہ کے ممتاز لوگوں میں سے تھے جنھوں نے بیعت عقبہ میں شرکت کی سعادت پائی۔ وہ بڑے بہادر، جری اور فنون حرب کے ماہرتھے انھیں غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق میں شریک رہنے کا اعزاز ملا۔حضرت خلادبن سویدؓ غزوہ قریظہ میں شہید ہوے ان پر کسی پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر پھینک دیا گیا تھا ۔ اس سے ان کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں شہید ہو گئے۔ وہ پتھر ان پر قبیلہ قریظہ کی ایک عورت نے پھینکا تھا۔ حضرت خلادؓ کی شہادت کے عوض اس عورت سے قصاص لیا گیا۔جنگ قریظہ میں حضرت خلاد بن سویدؓ کی شہادت سے متعلق حال معلوم کرنے ان کی والدہ ام خلاد ؓ منھ پر نقاب ڈال کرآئی تھیں۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معلوم ہوئی تو فرمایا کہ ’’چوں کہ خلاد کو اہل کتاب نے شہید کیا ہے اس وجہ سے ان کو دو شہیدوں کا ثواب ہے‘‘۔ حضرت خلادؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ وابستگی اور دین حق اسلام سے بے پناہ لگائو تھا وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ہر وقت آمادہ خدمت رہا کرتے تھے۔ حضرت خلادؓبارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان مقربان خاص میں شامل تھے جو ہمیشہ خدمت اقدس میں حاضر رہا کرتے تھے۔حضرت خلاد بن سویدؓمدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے نام اور نسب کے متعلق ارباب سیر نے تفصیلات بیان کی ہیں۔ حضرت خلاد ؓ کے دو فرزند تھے اور دونوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ کتب احادیث میں حضرت خلادؓ سے روایتیں بھی ملتی ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔