حق تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم دیا ’’زمین پر میرے حبیب محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حضور حاضر ہو۔ خبردار! بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا‘‘۔

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۳؍ڈسمبر( پریس نوٹ)مدارج النبوۃ میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات شریف کے دن حق تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم فرمایا کہ ’’زمین پر میرے حبیب محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حضور حاضر ہو۔ خبردار! بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا‘‘۔ قابض ارواح نے دروازے کے باہر اعرابی کی صورت میں کھڑے ہو کر عرض کیا ’’السلام علیکم اھل البیت النبوۃ و معدن الرسالۃ و مختلف الملائکہ‘‘۔ اس وقت شہزدایٔ کونین خاتون جنت سیدہ بی بی فاطمہ زہرا علیھا السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےپاس موجود تھیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے حال میں مشغول ہیں ، اس وقت ملاقات نہیں فرما سکتے۔اس اعرابی نے دوسری مرتبہ اجازت طلب کی اور وہی جواب پایا۔ تیسری مرتبہ جب اعرابی نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیدار ہوئے اور اعرابی سے صورت حال دریافت فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’اے فاطمہؑ! تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون ہے؟ یہ لذتوں کوتوڑنے والا، خواہشوں اور تمنائوں کو کچلنے والا، اجتماعی بندھنوں کو کھولنے والا، بیویوں کو بیوہ کرنے والا اور بچوں اور بچیوں کو یتیم کرنے والا ہے‘‘۔ حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہراؑ نے جب یہ سنا تو رونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اے میری بیٹی! روئو نہیں کیوں کہ تمہارے رونے سے حاملین عرش روتے ہیں‘‘ اور اپنا دست مبارک سے سیدہ بی بی فاطمہ ؑ کے چہرہ انور سے اشکوں کو پونچھا اور دلداری و بشارت فرمائی اور دعافرمائی کہ’’اے اللہ! انھیں میری جدائی پر صبر نصیب فرما‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات قبل رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۷۸‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت کرز بن جابر  ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود اقدس کا فیضان اثر ہے کہ آپؐ نے مکہ و مدینہ جدہر توجہ فرمائی ادھر بھٹکے ہوئوں نے راہ راست پایا، بھولے ہوئے کو توحیدکا سبق یاد آیا، ظالموں جابروں نے ظلم و جبر سے توبہ کی، منکروں نے اقرار حق کیا، گنہ گاروں نے ترک عصیاں کیا، مجرموں اور سرکشوں نے سر تسلیم خم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کورعب دبدبہ عطا فرمایا اور نصرت و فتحمندی خاص فرمادی۔ بڑے بڑے سرکش جب سامنے آجاتے تو جمال اقدسؐ کو دیکھ کر ہیبت سے لرز جاتے، دور و نزدیک کے بہادر، نام اقدسؐ سن کر دم بخود رہ جاتے، انھیں سواے اطاعت و تسلیم ورضا کے کوئی اور راہ نہ سوجھتی ۔ ایسا ہی حال حضرت کرز بن جابر فہری کا ہوا کہ ابتداء میں انھوں نے اسلام کی مخالفت کی اور زیادتی کی راہ اپنائی تھی لیکن بہت جلد مرعوب ہوکر خود ہی بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضری دی اورمشرف بہ اسلام ہوئے، اطاعت و فرمانبرداری اختیار کی اور پھر بعد میں راہ حق میں جان قربان کر کے دارین کی سعادت پائی۔پروفیسر سیدمحمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ کرزبن جابر نے قبول اسلام سے پہلے ایک ایسی حرکت کی تھی کہ ان کے تادیب کے لئے خودحضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارادہ فرمایا۔ہجرت کے دوسرے سال ماہ ربیع الاول کے شروع میں کرز بن جابر کی تلاش میں غزوہ ہوا۔اس غزوہ کا پرچم سفید تھا جسے حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ نے اٹھایا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ ؓ  کو مدینہ منوہ پرناظم اعلیٰ مقرر فرمایا۔ واقعہ یہ تھاکہ کرزبن جابر نے موقع دیکھ کر مدینہ منورہ کے باہر چراگاہ کولوٹا اور جانوروں کو ہنکا کر چلتے بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام کے ہمراہ کرز کی تلاش کرتے ہوئے اس وادی میں تشریف لے گئے جسے سفوان کہا جاتا تھا۔ کرز وہاں سے نکل بھاگے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام مبارک کا رعب اور دبدبہ کرز بن جابر کو ہمہ وقت لرزہ بر اندام رکھتا تھا۔ آخر کار اپنی سرکشی ترک کر دی از خود بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہو کر شرف اسلام سے بہرہ مند ہوئے۔حضرت کرزؓ کے والد جابر بن حسیل بن لاحب تھے۔ یہ محارب بن فہر کی اولاد سے تھے اور قوم قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت کرز بن جابر فہریؓ ہر وقت اس فکرمیں رہا کرتے تھے کہ دین حق کی کوئی ایسی نمایاں خدمت انجام دیں کہ گزشتہ واقعات کی تلافی بھی ہو اور انھیں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور سرخروئی حاصل ہو۔ چنانچہ انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدمت دین کے لئے وقف کر دیا۔ وہ محبت حق تعالیٰ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت لازوال رکھتے تھے۔ اطاعت الٰہی اور اتباع سنت نبویؐ میں اپنے ساتھوں کی طرح تھے۔۶ھ میں جب عرینہ کے لوگ مدینہ منورہ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن چند دنوںمیں علیل ہو گئے تو انھیں مقام ذی الجدد کی چراگاہ میں قیام اور وہاں کے جانوروں کے دودھ کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ عرینہ کے لوگ ذی الجدد میں جب تندرست اور صحت مند ہو گئے تو انھوں نے اونٹوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا اور ہنکالے گئے۔ چراگاہ کے نگران کے ہاتھ پائوں کاٹ دئے اور ان کی آنکھوں میں کانٹے چبھو دئیے۔ اس اندوہ ناک واقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت کرز بن جابرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اہل عرینہ کا تعاقب کرواور انھیں لے آئو۔ حضرت کرز بن جابرؓ نے نہایت تیزی اور حوصلہ مندی سے عرینہ والوں کا پیچھا کیا اور انھیں حراست میں لے کر دربار رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں پیش کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہل عرینہ سے ان کے کئے پر قصاص لیا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت کرز بن جابر ؓ  لشکر اسلام میں شریک تھے۔اہل مکہ کے ساتھ مجادلہ کے جو چند واقعات ہوئے ان میں حضرت کرزبن جابر فہری ؓ نے جام شہادت نوش کیا۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔