مولائے کائناتؑ کے فرمودات بلاشبہ دانائے سبل ختم الرسل صاحب جوامع الکلم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ کا فیض اثر
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۶۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۱؍جنوری( پریس نوٹ)حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب ابی الحسن قرشی ہاشمی ؑ کے مناقب، شان و مرتبت کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعدد ارشادات ملتے ہیں۔ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالبؑ سے ارشاد فرمایا کہ ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں‘‘۔ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں کل جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کواللہ و رسولؐ محبوب رکھتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسولؐکو محبوب رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے ہاتھوں فتح نصیب کرے گا‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ کو بلایا اور جھنڈا عطا کیا اور اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت علی ؑ سے ارشاد فرمایا کہ’’تم میرے ساتھ اس درجہ پر ہو جس درجہ پر ہارون ؑ، موسیٰ ؑکے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ حجۃ الوداع سے واپسی میں غدیر خم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام کے کثیر مجمع سے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کے فضل و کمال، امانت و دیانت، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی۔اسی خطبہ عالیہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’میں جس کا مولیٰ اور آقا ہوں، علی ؑ بھی اس کے مولیٰ اور آقا ہے‘‘۔ مزیدارشاد فرمایا ’’اے اللہ! جوعلی ؑ کا مددگار ہو ، تو بھی اس کا مددگار ہو جا اور جو علیؑ سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ، جو علی ؑ سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ، جو علی ؑ سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ۔ جو علی ؑ کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد فرما، جو علیؑ کی اعانت کرے تو بھی اس کی اعانت فرمااور علی ؑ جہاں بھی ہو حق اور صداقت کو ان کا ساتھی بنا دے‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل مبارکہ میںخاندان رسالتؐ کو اپنے صحیح النسب، شریف اور برگزیدہ ہونے کے باعث جو عظمت و بزرگی حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ اسی مقدس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پدر بزرگوار حضرت سیدنا عبد اللہ ؑ اور حضرت علیؑ کے والد ماجد سردار حضرت ابو طالبؓآپس میں بھائی تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ چچازاد بھائی اور ہم جد ہیں۔ حضرت سیدنا علی ؑکا اس شرافت نسبی پر افتخار و انبساط بجا ہے۔ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کی کنیت ابو تراب تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عطا کردہ تھی اور حضرت سیدنا علی ؑ کو بے حد پسند تھی اور جب اس کنیت سے یاد کئے جاتے تو بے حد مسرور ہوتے تا ہم وہ کنیت ابو الحسن سے مخاطب کئے جاتے تھے۔حضرت سیدنا علی ؑ کی والدہ ماجدہ کا اسم شریف حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ؑ تھا۔ اس طرح آپ والد اور والدہ دونوں طرف سے ہاشمی تھے۔ حضرات طالب، عقیل اور جعفر طیارؓ آپ کے بھائی اور حضرت ام ہانیؓ بہن تھیں۔حضرت سیدناعلی ؑ کی والدہ ماجدہؓ آپ کو ’’حیدر‘‘فرمایا کرتی تھیں۔حضرت سیدناعلی ابن ابی طالبؑ نہایت خوبصورت، وجیہہ، حسن و جمال کے پیکر، گندم گوں، بڑی آنکھوں، فراخ جبین، گھنی ڈاڑھی، کشادہ سینہ اور چوڑے شانے والے اور نہایت موثر و بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۰۰:۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۶۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں امیر المومنین مولائے کائنات حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پاک کے منور پہلوئوںپر پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے لکچرز دئیے۔قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۸۵‘ واں سلسلہ وار، پر مغز اور معلومات آفریں لکچر دیا۔بعد ازاں انھوں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کے ارشادات و فرمودات مبارکہ سے چند فرامین پیش کرتے ہوے کہا کہ باب علم سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ کے فرمودات و ارشادات کا نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ کم سے کم الفاظ میں معانی و مطالب کے خزینے سمو دیتے ہیں یہ خاصہ بلاشبہ دانائے سبل،ختم الرسل صاحب جوامع الکلم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آپ پر توجہ کا فیض اثر اور عطائے خاص ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے‘‘۔ فرمایا ’’ علم شریف ترین میراث ہے‘‘ ۔ فرمایا ’’’ جو شخص اپنے آپ کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’ یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے، گوشت کے لتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’لوگوں سے اس طرح ملو کہ اگر مرجائو تو تم پر روئیں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں‘‘۔فرمایا ’’دشمن پر قابو پائو تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو‘‘۔فرمایا ’’جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو‘‘۔فرمایا ’’خوف کا نتیجہ ناکا می اور شرم کا نتیجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھڑیاں ابر کی طرح گزر جاتی ہیں لہذابھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو‘‘۔فرمایا ’’بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے‘‘۔فرمایا ’’بہترین دولت مندی خواہشات کا ترک کرنا ہے‘‘۔فرمایا ’’بے وقوف سے دوستی نہ کرنا کیوں کہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچائے گا اور بخیل سے دوستی نہ کرنا کیوں کہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی ضرورت ہوگی وہ تم سے دور بھاگے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیوں کہ وہ سراب کی مانند تمہارے لئے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا‘‘۔فرمایا ’’معاف کرنا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو سزا دینے پرقادر ہو‘‘۔فرمایا ’’قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا‘‘۔فرمایا ’’جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں‘‘۔فرمایا ’’بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے‘‘۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہیؐ میں حضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۵۶۱‘ واں تاریخ اسلام اجلاس اختتام پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔