مولائے کائناتؑ نے فرمایا: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت شریف سے نبوت ، غیب کی خبروں اور وحی کا انقتاع
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۵۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۷؍جنوری( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غسل شریف دیتے ہوئے حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ یہ کہہ رہے تھے کہ ’’میرے مادر پدر آپ پر قربان، آپ کی رحلت شریف سے وہ چیز جاتی رہی جو کسی دوسرے کی موت سے نہ گئی تھی یعنی نبوت اور غیب کی خبروں اور وحی کا انقتاع ہو گیا۔ آپ کی رحلت خا ص صدمہ عظیم ہے کہ اب سب مصیبتوں سے دل سرد ہو گیا اور ایسا عام حادثہ ہے کہ سب لوگ اس میں یکساں ہیں۔‘‘ مزید کہہ رہے تھے کہ ’’اس درد کا علاج ہی نہیں اور یہ غم تو جانے والا ہی نہیں۔ میرے والدین حضورؐ پر نثار۔ پروردگار کے ہاں ہمارا ذکر فرمانا اور اپنے دل میں ہمیںیاد رکھنا‘‘۔حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ نے فرمایا کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ شریف پر کسی نے امامت نہ کی۔ اس لئے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر حال میں تمہارے امام ہیں اور یہ حضور اکرمؐ کی خصوصیات سے ہے کہ متعدد نمازیں ہوئیں اور تنہا تنہا لوگوں نے پڑھیں۔ سب سے پہلے جنھوں نے جنازہ شریف کی نمازپڑھی وہ اہل بیت نبوۃ تھے حضرت عباس بن عبد المطلبؓ، حضرت علی ابن ابی طالبؑ اور دیگر بنو ہاشم۔جب اہل بیت نے نماز پڑھ لی اور بعد میں جب مہاجرین اور انصار آئے تو ان کو معلوم نہ تھا کہ کیا پڑھیں اور کیا دعا کریں۔جب لوگوں نے اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ سے رجوع ہونے کو کہا۔حضرت علی ابن ابی طالبؑ سے جب لوگ رجوع ہوئے تو انھوں نے لوگوں کو ایک دعا پڑھنے کو کہا جو کتب سیر میں موجود ہے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسد اطہر کی جانب کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ ’’اے نبی گرامی ؐ! آپ پر اللہ کی رحمت و برکت نازل ہو۔ اے اللہ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے محبوبؐ نے وہ سب کچھ پہنچایا جو آپ(حضورؐ) پر نازل ہوا۔ اور اپنی امت کے ساتھ نصیحت کے تمام حقوق ادا فرمائے۔ راہ حق میں جہاد کیا یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب فرمایا۔ اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں بنا کہ ہم اس کی پیروی کریں جو حضورؐ پر نازل ہوا۔ اور ہم کو اور حضور پاکؐ کو قیامت کے دن جمع فرما‘‘۔ لوگوں نے اس پر آمین کہی۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت شریف روز دوشنبہ ہوئی حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسد پاک کو شب چہارشنبہ وقت سحر قبر انور میں داخل کیاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور میں داخل ہونے والوں میں حضرت علی ابن ابی طالبؑ ، حضرت عباس بن عبد المطلبؓ، حضرت فضل بن عباسؓ ، حضرت قثم بن عباسؓ ، حضرت شقرانؓ اور حضرت اوس بن خولیؓکے نام ملتے ہیں۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۵۹‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہؐ کے تسلسل میں واقعات رحلت شریف پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۸۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت طہفہ بن قیس ؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت طہفہ بن قیسؓ کا تعلق قبیلہ غفار سے تھا اور وہ اہل صفہ میں شامل تھے۔ رات دن دربار رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر رہا کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جمال پاک کے مشاہدہ اور ارشادات نبویؐ کی سماعت و نیز خدمت اقدس کا شرف خاص ان کا مقدر تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان پر توجہات خاص تھیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب صفہ کے متعلق صحابہ سے فرمایا کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو تو صحابہ میں سے کسی نے ایک، کسی نے دواصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لیا اور گھر لے جا کر ان کی مہمانداری کی مسرت حاصل کی۔ پانچ لوگ بچ گئے تھے جن میں حضرت طہفہؓ بھی تھے انھیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے کاشانہ مبارکہ لے گئے اور فرمایا کہ ہم لوگوں کو کھانا کھلائو۔حضرت بی بی عائشہ نے علی الترتیب بھنا ہوا گوشت، حیسہ (ایک خاص پکوان) پیش کیا پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد پر بڑے برتن میں پانی حاضر کیا ما بعد دودھ کا پیالہ پیش کیا۔ جب اکل و شرب سے فارغ ہوئے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے پانچوںاصحاب مسجد نبوی ؐ شریف آگئے۔ ایک بار حضرت طہفہؓ پیٹ کے بل استراحت کر رہے تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں بیدار کیا اور ارشاد فرمایا کہ اس ہیئت سے سونا اللہ کو ناپسند ہے پھر اس کے بعد کبھی آپ اس طرح نہ سوئے۔ حضرت طہفہؓ بن قیس خدا و رسولؐ سے بے حد محبت رکھتے تھے ان کی ساری زندگی عبادت و ریاضت، خدمت دین اور تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے عبارت تھی۔ آپ کی وفات، عمر اور اہل و اولاد کے بارے میں ارباب سیر خاموش ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۵۹‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔