رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں دوذبیحوں کا حاصل ہوں۔ ایک جدکریم حضرت اسماعیل ؑ اور دوسرا میرے والد ماجد حضرت عبداللہ ؑ کا
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۶۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۴؍فبروری( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’میں د و ذبیحوں کا حاصل ہوں ۔ ایک جد کریم حضرت اسماعیل ؑ اور دوسرا میرے والد ماجد حضرت عبد اللہ ؑ کا‘‘۔اس ضمن میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد مکرم حضرت عبد المطلبؓ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی پکار کر کہہ رہا ہے کہ ’’چاہ زم زم کھودو‘۔ جگہ کی نشاندہی بھی کر دی گئی۔ جب وہ کھودنے لگے تو قریش نے مخالفت کی۔ حضرت عبد المطلبؓ کو اس وقت ایک ہی فرزند حضرت حارث تھے۔ تب حضرت عبد المطلبؓ نے نذر مانی کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے دس بیٹے دئیے اور وہ میری اطاعت کر سکیں تو میں ایک فرزند کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کعبہ معظمہ کے پاس ذبح کر دوں گا‘‘۔ جب دس بیٹے ہوئے اور جوان ہو گئے تو حضرت عبد المطلبؓ نے انھیں اپنی نذر سے مطلع کیا۔ سب نے آمادگی ظاہر کی۔ قرعہ اندازی میں حضرت عبد اللہ ؑ کا نام نکلا۔ جب ارادہ ذبح کیا تو قریش نے تجویزرکھی کہ خوں بہا کے دس اونٹ اور حضرت عبد اللہ ؑ کے درمیان قرعہ اندازی کر لو،اگر قرعہ اونٹوں پر پڑے تو ٹھیک ہے ورنہ مزید دس اونٹوں کا اضافہ کرو، اور ایساہی کیا گیا یہاں تک کہ تعداد ایک سو اونٹوں تک جا پہنچی اور اونٹو ںکا نام قرعہ نکلا۔ حضرت عبد المطلب ؓ نے حضرت عبد اللہ ؑ کے عوض ایک سو اونٹ قربان کئے اور اس کا بڑا شہرہ ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد ماجد حضرت عبد اللہ ؑبن عبد المطلبؓ قریش میں سب سے زیادہ حسین اور خوبصورت تھے اور حضورؐ کا نور ان کے چہرہ مبارک میں اس طرح چمکتا تھا جیسے روشن ستارہ ہوتا ہے۔ آپ طبعی اور نسبی طور پر انتہائی شریف اور پاکباز تھے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۶۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (ظہور اقدسؐ سے پہلے) پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔ بعدہٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۸۷‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کی زندگی کے مبارک احوال پیش کئے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے تعلق رکھنے والے حضرت عبد اللہ بن سلام احبار یہود سے تھے اور تورات کے زبردست عالم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خاتم النبیین ؐ کی بعثت شریف سے متعلق بشارتوں کے علاوہ خود حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ اقدس، اوصاف حمیدہ اور ہجرت نبویؐ کی کیفیتوں سے باخبر تھے ۔ ہجرت مقدسہ کے وقت جب حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سواری مبارکہ مدینہ منورہ میں داخل ہو رہی تھی تو وہ ایک کھجور کے درخت پر چڑھے ہوئے نظارہ کر رہے تھے اور ان کی زبان پر تکبیر جاری تھی۔ ان کی پھوپھی نے جب یہ دیکھا تو کہا کہ عبد اللہ بن سلام اگر حضرت موسیٰ ؑ کی خبر بھی سنتے تو اتنا خوش نہ ہوتے جتنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ منورہ آمد پر مسرور و شاداں تھے۔حضرت عبد اللہ بن سلامؓ آسمانی صحائف کی بشارتوں کے ساتھ ساتھ شعوری طور پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت شان، رسالت عامہ اور خاتمیت نبوت کا دل کی گہرائیوں سے یقین کیا تھا۔ پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھتے ہی حضرت عبد اللہ بن سلام کا احساس ویقین تھا کہ یہ چہرہ بلا شبہ رسول صادقؐ کا ہے اوروہ دل سے حضورؐ کے والہ و شیدا ہو گئے۔ انھوں نے خلوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایسے تین سوالات کے جواب دریافت کئے تھے جو سوائے نبی کے کوئی اور نہیں جان سکتا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بموجب وحی الٰہی ان کے جواب عطا فرمائے توحضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے بے ساختہ حضورؐ کی رسالت کی گواہی دی اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ اسی وقت آپ نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینے کا بیڑا اٹھایا۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ یہود کی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ کئے بغیر انھوں نے تبلیغ و اشاعت اسلام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کا قدیمی نام حصین تھا اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام عبد اللہ تجویز فرمایا جو ان کو بے حد پسند اور عزیز تھا۔ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اطہر سے بے پناہ لگائو اور والہانہ وابستگی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ جہاں علم و فضل میں بلند رتبہ، حقائق سے آگاہ اور دولت معرفت سے مالا مال تھے وہیں نصرت دین کے لئے میدان جہاد میں سرفروشانہ انداز سے سر گرم رہا کرتے تھے۔ غزوہ خندق اور بعد کی جنگوں میںآپ کی مجاہدانہ شرکت ،راہ خدا میں سب کچھ نچھاور کر دینے کے جذبہ اخلاص کی آئینہ داری کرتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کی وفات ۴۳ھ میں دیار حبیب کبریاؐ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ انھیں دو فرزند تھے۔ وہ علوم قرآن و حدیث کا گنجینہ مانے جاتے تھے۔ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پہلا وعظ جس میں حضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! سلام کو پھیلائو، لوگوں کو کھانا کھلائو، صلہ رحمی کرو، رات میں نمازیں پڑھو اور شب خیزی کرو‘‘، حضرت عبد اللہ بن سلامؓنے سنا اور روایت کی ہے۔ اکابر صحابہ حدیث کے سلسلہ میں اکثر آ پ سے رجوع کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں جنتی ہونے کی نوید سنائی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ کے مزا ج میں سادگی، تواضع اور ملنصاری تھی وہ اخلاق نبویؐ کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ صحابہ اور تابعین انھیںدل سے چاہتے اور عزت کرتے تھے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۶۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔