حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؑ باب علم ، سرچشمہ فیضان ولایت ،عبادت الٰہی میں یگانہ اور ذکر و فکر حق میں بے نظیر 

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۷۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 حیدرآباد ۔۳۱؍مارچ( پریس نوٹ) عشق و اطاعت حق تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سچی محبت اور اتباع کاملہ، قران و سنت پر عمل پیرائی کا اعلی ترین نمونہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی بن ابی طالب ؑ کی حیات و معمولات و اخلاق و کردار اعلیٰ میں بہر پہلو ملتا ہے۔حضرت سیدنا علی ؑ کی مبارک زندگی علم و تقوی، شجاعت و سخاوت، خصائل حمیدہ، قول و عمل کی یکسانی کا اعلی ترین امتزاج پیش کرتی ہے۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ،داماد،خاندان بنی ہاشم کے روشن چراغ ، نجیب الطرفین ہاشمی، سبقت اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش میں پرورش و تربیت پانے کے منفرد اعزاز سے سرفراز تھے۔مولائے کائنات حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ کی ولادت عین خانہ کعبہ بیت اللہ شریف میں ہوئی۔ولادت کے بعد آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار کیا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؑ شجیع اعظم تھے و نیز اسد اللہ سے ملقب ہوے۔ مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصاریوں کے درمیان مواخاۃ کے اہم موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی ؑسے فرمایاکہ ’’تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو‘‘۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ’’ اے علی! تم میرے لئے ایسے ہو جیسے ہارون ؑ موسیٰ ؑکے لئے تھے البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔ غزوہ خیبر کے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ میں کل علم اس شخص کو دوںگا جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے ہاتھوں فتح ہوگی‘‘ اور وہ حضرت سیدنا علی ؑ تھے جنھیں علم دیا گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ عِلم کے دس حصوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو نو حصے عطا فرماے اور دسویں میں بھی آپ شریک تھے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اورٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۷۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنز میں سیرت مولائے کائنات امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ پر لکچرزمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی نے ایک آیت جلیلہ کا تفسیری ، ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا۔انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں سیرت امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۹۵‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت سیدنا علی ؑ علم کے بحرزخار، فصاحت و بلاغت میں یکتاے روزگار تھے آپ کے خطبات حکمت ودانائی، زبان و بیان، سادگی و تاثیر، روانی و سلاست کے ساتھ ساتھ جامعیت کے شاہکار مانے جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں لکھنے کے کم رواج کے باوجود حضرت سیدنا علی ؑ تحریر میں خاص کمال رکھتے تھے حدیبیہ کے صلح نامہ کے علاوہ آپ کے دیگر مکتوبات اور تحریریں قدیم عربی زبان و ادب کے نوادرات سے ہیں۔ حضرت سیدنا علی ؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خاص تقرب حاصل تھا چنانچہ خود حضرت سیدنا علی ؑ کا فرمانا ہے کہ’’فہم جو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو قرآن میں دے وہ فہم میرے پاس ہے‘‘ مزید فرمایا کہ’’ جتنی آیات قرآنی نازل ہوئی ہیں ان سب کا مجھے علم ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کہاں اور کب نازل ہوئیں‘‘۔انھوں نے بتایا کہ حضرت سیدنا علی ؑ کی تفسیر قرآن مجید بڑی ضخیم ہے۔ احادیث نبوی ؐکی روایت اور انھیں تحریری طور پر محفوظ کرلینا آپ کے عظیم الشان علمی کارنامے ہیں بالخصوص فقہی احکام پر مبنی احادیث شریف کا مجموعہ جسے حـضرت سیدنا علی ؑ صحیفہ فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ جماعت صحابہ میں حضرت سیدنا علی ؑ کی مجتہدانہ شان سب سے منفرد و ممتاز تھی ۔ استنباط مسائل میں بے نظیر تھے اکابر صحابہ آپؑ سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ مقدمات کے فیصلوں میں حضرت سیدنا علی ؑ بے مثال مانے جاتے تھے چنانچہ تمام صحابہ حضرت سیدنا علی ؑ کی قوت فیصلہ کے معترف تھے۔پروفسیر سیدمحمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت سیدنا علی ؑنسبی شرافت میں بھی نمایاں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالبؓ کے فرزند اورحضرت عبد المطلبؓ کے پوتے تھے۔ حضرت سیدنا علی ؑ کی ولادت مبارکہ بعثت شریف سے ۱۰ سال قبل ۱۳؍ رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں ہوئی۔ حضرت سیدنا علی ؑ کی کنیت ابو تراب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عطا کردہ تھی جو انھیں بہت پسند تھی بالعموم ابوالحسن سے یاد کئے جاتے تھے۔ آپ ؑ کی والدہ محترمہ کا اسم مبارک حضرت فاطمہ بنت اسدؓ تھا۔وہ ہاشمیہ تھیں۔ تین بھائی حضرات طالبؓ،عقیلؓ اور جعفر ؓکے علاوہ دو بہنیںتھیں۔ سیدۃالنساء العلمین خاتون جنت شہزادی کونین حضرت فاطمہؑ بنت رسول مقبولؐ سے عقد نکاح حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کے اعزاز اور شرف خاص کا منور پہلو ہے۔ حضرات حسنین کریمین ؑحضرت سید نا علی ؑ کے فرزندان جلیل ہیں۔شجاعت و بہادری میں شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ ؑ معاصرین میں ممتاز و نمایاں تھے تبوک کے سوا تمام غزوات و مشاہد میں اپنی بے پناہ خداداد طاقت و جسارت، حوصلہ مندی اور مہارت جنگ کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دشمنوں کو بھی آپ ؑ کی شجاعت و بسالت کا اعتراف کرنا پڑا غزوہ بدر میں حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سیف ذوالفقار حضرت سیدنا علی ؑکو عطا کی تھی۔ غزوہ بدر میں حضرت سیدنا علی ؑ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علمبردار تھے غزوہ احد میں شجاعان اسلام میں نمایاں نام آپؑ ہی کا ملتا ہے۔ غزوہ خیبر میں قلعہ قموص کی فتح حضرت سیدنا علی ؑ کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت و وارفتگی اور عشق بے مثال تھا۔ آداب رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پاس و لحاظ وتیرہ حیات مرتضویؑ تھا۔ اتباع سنت میں نہایت شدید اور محتاط تھے۔ ۳۵ھ میں مسند خلافت پر رونق افروز ہوے اور ۲۱؍ رمضان المبارک ۴۰ھ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا سانحہ عظیم ہوا عمر شریف ۶۳ برس ہوئی۔ حضرت سیدنا علی ؑ کی عظیم المرتبت شخصیت مسلمانوں کے تمام فکری گروہوں کے نزدیک اہم اور تمام صاحبان دین و دانش ارباب علم و عرفان کے پاس آپؑ کا بے حد احترام ایک حقیقت ہے۔ طریقت کے اکثر سلسلے آپؑ پر منتہی ہوتے ہیں۔حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؑ باب علم اور سرچشمہ فیضان ولایت ہیں عبادت الٰہی میں یگانہ اور ذکر و فکر حق میں بے نظیر تھے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۷۱‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔جناب محمد مظہر خسرو حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔