سخاوت تقرب الٰہی، رضاے حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصول اور حقوق العباد کی تکمیل کا ذریعہ
آئی ہرک کے ’’۱۵۷۰‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس میں موضوعاتی مذاکرہ’ ’انفاق‘‘ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۴؍مارچ ( پریس نوٹ) رمضان المبارک میں نماز اور روزہ کے ساتھ زکوٰۃ و انفاق جیسے مدات خیر سے غرباء و مساکین ضرورت مندوں اور ناداروں کی غم خواری کا موثر معمول روح میں بالیدگی پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال سے کچھ خرچ کرنا، فاقہ کشوں کی شکم سیری کرنا، لوگوں کو کپڑا پہنانا، بیماروں کے علاج اور دوا کا انتظام کرنا، بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا، غیر ت دار قرابت والوں کی اس عمدگی کے ساتھ مالی اعانت کرنا کہ ان کی خود داری کو ٹھیس نہ لگے، صلہ رحمی، قرضداروں کو مہلت، سود کی لعنت میں گرفتار لوگوں کو پنجہ ربا سے رہائی کا سامان کرنا، مہمان نوازی، طلبا ء دین کے خور و نوش کا انتظام، یتامیٰ و بیوگان کی معاشی مدد اور ہر وہ کام جو مخلوق کی راحت رسانی کا سبب بنے اگر چہ کہ ہر وقت پسندیدہ اور باعث ثواب ہے لیکن خاص ماہ رمضان میں فی سبیل اللہ ہر خرچ اجر و عوض کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ فائدہ بخش اور رضاے حق تعالیٰ کا موجب بنتا ہے۔ زکوٰۃ کے لئے نصاب و شرح، شرائط و ضوابط شرع شریف مقرر فرما دیے ہیں جب کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے ،صدقہ نفل کے لئے کوئی خاص جگہ خاص وقت اور خاص وجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے توفیق عطا کرے وہ ضرورت مندوں کی اعانت کے لئے جتنا چاہے جب اور جہاں چاہے خرچ کر سکتا ہے اس کا اسے ضرور معاوضہ اور بدلہ عطا ہوتا ہے۔ مسلم معاشرہ کا وہ طبقہ جو مال و دولت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے ان کا جذبہ ایمان اور اطاعت حکم الٰہی کے ضمن میں انفاق، صدقات، خیرات و نیز داد و دہش کا سلسلہ معاشرہ کے دوسرے نادار اور ضرورت مند طبقہ کی بہت سی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم کرنا معنوی اعتبار سے ایثار ہے۔ جذبہ ایثار اور عملی فیاضی کے لئے مخصوص مقدار دولت و ثروت شرط نہیں بلکہ کوئی بھی دوسرے کی بھلائی کی خاطر یہ نیکی کر سکتا ہے اور اپنی ضرورت اور فائدہ پر دوسرے کو ترجیح دے کر دارین کی سعادتوں کا مستحق بن سکتا ہے۔ ایثار اخلاقی تعلیمات میں اونچا درجہ رکھتا ہے اس کا موثر اور قابل تقلید نمونہ ہمیں اہل بیت اطہار ؑ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں ملتا ہے۔سخاوت کے کئی پہلو ہیں ان میں افضل ترین مالی ایثار یعنی عطا و بخشش اور داد و دہش ہے یعنی اللہ کی راہ میں اللہ کے بندوں پر اپنا مال خرچ کرنا۔ مالی ایثار، کئی اصطلاحی ناموں سے جانا جاتا ہے جن میں سے ایک صدقہ بھی ہے جس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔یہ خطائوں کو مٹانے کا باعث بنتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا کی خاطر مالی ایثار کرتے ہیں اپنے مال کو مستحق لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں نہ صرف دنیا میں اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اجر عظیم سے نوازتا ہے۔ آج صبح ۱۰بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور ۱۲ بجے دن جامع مسجدمحبوب شاہی مالا کنٹہ روڈ، روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام ’۱۵۷۰‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے دونوں سیشنوں میں منعقدہ موضوعاتی مذاکرہ ’’انفاق‘‘میں ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا گیا۔ مذاکرہ کی نگرانی پروفیسر سید محمد حسیب الدین حسینی رضوی حمیدی جانشین شہزادہ امام علی ابن موسیٰ رضاؑ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒنے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی ۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ سخاوت اور فیاضی جو اسلام کی اساسی تعلیمات میں نمایاں ہیں ماہ رمضان سے ان کا خاص تعلق ہے۔ روزہ دار اللہ تعالیٰ کی توفیق اور کرم سے زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور مخلوق خدا کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے جذبہ احسن کے ساتھ سخاوت اور مالی ایثار کیا کرتا ہے۔ سخاوت ایسا وصف ہے جو بندہ کو معبود حقیقی سے قریب کرتا ہے اور مخلوق میں اسے محبوبیت اور عزت سے ہمکنار کرتا ہے۔ سخاوت کے ذریعہ اگر چہ کہ ایک بندہ دوسرے بندوں کی مالی اعانت کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فیاض بندہ کی فیاضی سے خوش ہوکر اسے مزید انعام و اکرام سے مالا مال فرماتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ، سنت مقدسہ اور ارشادات عالیہ میں سخاوت کا خاص موقف ہے بخشش و خیرات، اپنی خوشی سے اپنی کوئی چیز کسی حاجت مند کو دے دینا، دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مالی ایثار کرنا، اوروں کی خوشی اور ضرورت کی تکمیل کے لئے اپنی حاجت و خواہش سے دستبردار ہو جانا، لوگوں کے آرام کے لئے اپنی راحت سے دستکش ہو جانا و نیز اپنے مال، دولت ، اثر و رسوخ کو مخلوق خدا کی بھلائی کی خاطر لگا دینا سخاوت کے مختلف تابناک پہلو ہیں۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ احادیث شریف سے ثابت ہے کہ سخی اللہ تعالیٰ، جنت اور لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے جب کہ بخیل اللہ تعالیٰ سے، جنت سے اور مخلوق خدا سے دور ہے لیکن جہنم سے قریب ہوتا ہے۔ بخل اور بدخلقی کسی مومن میں جمع نہیں ہوا کرتی ہے۔ اللہ کے سخی بندہ کے لئے زمین پر اس سے نفع پانے والے اور آسمان پر فرشتے دعا کیا کرتے ہیں کہ اے اللہ سخی کو اس کی فیاضی کا اچھا عوض اور اجر عطا فرما۔سخاوت کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ماہ رمضان میں مسلمانوں کو عبادت خالق اور خدمت مخلوق دونوں کا شرف ملتا ہے۔ نماز ، روزہ، زکوٰۃ خالص معبود حقیقی کی عبادات ہیں اور انفاق، صدقات، کارخیر و نیز خود فریضہ زکوٰۃ جس کا عبادت الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ حق العباد سے تعلق بھی ہے ان اعمال خیر اور مالی ایثار سے روزہ دار صحیح معنوں میں رضاے حق تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرکے دارین کی سرخروئی سے مالا مال ہوتا ہے۔ سخاوت تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی ستون ہے سخاوت و فیاضی کا بھر پور سلسلہ رہے لیکن کسی کی مالی خدمت کر کے احسان جتانے سے روکا گیا ہے کیوں کہ یہ مومن سخی کے شایان شان نہیں۔ اخلاص کے ساتھ جو سخاوت کی جائے اس کا بدلہ و اجر اللہ تعالیٰ کئی گنا زیادہ بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔سخاوت مال میں اضافہ اور خیر و برکت کی کنجی ہے کیوں کہ یہ ارشادملتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر خرچ کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اپنی پاک کمائی اور فی سبیل اللہ خرچ میں سے ایک حصہ ضرور بہ ضرور اپنے مستحق لواحقین کی مالی اعانت کے لئے صرف کیا جائے یہ بڑی خدمت ہے۔ جب مسلمان اپنے گھر والوں پران کی ضرورت کے موافق خرچ کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے باعث اجر و ثواب بنتا ہے۔ مالی ایثار کے سلسلہ میں یہاں تک آیا ہے کہ ہر نیک کام میں خرچ کئے جانے والے روپیہ کا بدل و ثواب ہے لیکن جو روپیہ اپنے گھر والوں اور عزیز اقارب کی ضرورتوں پر خرچ کیا جاتا ہے اجر و فضیلت میں ایک گونا زیادہ ہے۔بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںحضرت تاج العرفاءؒ کا عرض کردہ سلام گزرانا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا یہ ’’۱۵۷۰‘‘ واں اجلاس و مقصدی مذاکرہ’’انفاق‘‘ اختتام کو پہنچا۔جناب محمدمظہر خسرو حمیدی نے ابتداء میں خیرمقدم کیا اور آخر میں شکریہ ادا کیا۔