اللہ تعالیٰ نے ظہو ر قدسی ؐ کے سال بہت ساری برکتیں نازل فرمائی
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۶۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۳؍مارچ( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت یعنی ظہور قدسی کی تاریخ اور دن سے متعلق مختلف روایات ہیں تاہم دوشنبہ کا دن سبھی کے پاس مشترک ہے۔ ماہ ولادت کے بارے میں صحیح قول ماہ ربیع الاول شریف ہے۔ تاریخ ولادت کے متعلق ماہ ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ پر اتفاق ہے تاہم ۹؍ربیع الاول اور ۱۷؍ربیع الاول کی روایات بھی ملتی ہیں۔وقت تولد دن یا رات کے بجائے صبح صادق مشہور اور معلوم ہے۔ موسم بہار کے دن تھے۔ ولادت باسعادت عام الفیل میں ہوئی جس کی مطابقت اپریل ۵۷۱ء سے ہوتی ہے۔ حضرت سیدہ بی بی آمنہ ؑ فرماتی ہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت شریف کے وقت ان کے پاس کچھ ایسی دراز قد عورتیں آئی جیسے حضرت عبد المطلبؓ کی بیٹیاں ہوں۔ ان عورتوں کے چہرے چمکدار ار روشن تھے۔ انھیں حضرت سیدہ بی بی آمنہ ؑ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سب آپ کی خدمت میں مصروف تھیں۔ ان عورتوں نے بتلایا کہ ان میں ے ایک فرعون کی بیوی حضرت آسیہؓ اور ایک حضرت عیسی ؑ کی والدہ حضرت بی بی مریم بنت عمرانؓ ہے۔ حضرت سیدہ بی بی آمنہ ؑفرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا میں اس طرح تشریف لائے کہ وہ سجدے کی حالت میں تھے۔ پھر اپنا سر اقدس اٹھایا اور انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد گرامی حضرت سیدنا عبد اللہ ؑ نے حضرت سیدہ بی بی آمنہ ؑ کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کیا تھا۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے قبل ہی والد گرامی کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ حضرت عبد اللہ ؑ ایک قریشی قافلہ کے ساتھ تجارت کے لے گئے تھے لیکن راستہ میں بیمار ہونے کی وجہ سے وہ یثرب (مدینہ منورہ) میں بنی نجار کے یہاں ٹھہرے جو آپ کا نانیہال تھا۔ وہیں پر آپ کا انتقال ہو گیا۔اللہ تعالیٰ نے ظہور قدسیؐ کے سال بہت ساری برکتیں نازل فرمائی۔ قریش کے لئے خوشی اور مسرت کا سال تھا کیوں کہ اس سے پہلے قریش زبردست خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔ لیکن جس سال حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ، زمین سبزہ زار بن گئی اور ددرخت ہرے بھرے ہو کر پھلوں کے بوجھ سے دب گئے۔ ہر طرف بجلی کی کڑک نظر آتی، گھٹائیں گھر گھر کر آتیں اور برس کرجل تھل کر جاتیں۔ اس سال کی یہ برکت بھی تھی کہ اس سال نر بچے ہی پیدا ہوئے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۶۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔ٗ ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۹۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت نُبیط بن جابر ؓکے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کو اپنے فضل و کرم سے بے حد عزت و عظمت اور مراتب اعلیٰ سے سرفراز فرمایا ہے اور انھیں اپنی رضاء و خوشنودی کی سند عطا فرما دی ان خوش مقدر ہستیوں نے خود زبان حق ترمانؐ سے دعوت ایمان پانے کا شرف حاصل کیا اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا کلام جلیل حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سینہ اطہر و اقدس پر نازل ہوتا اورا ن صحابہ کرام کو ارشادات اقدس راست سننے اور تعمیل ارشاد و پیرویٔ سنت کی سعادت ملا کرتی۔ انھیں علو منزلت بزرگوں میں حضرت نُبیط بن جابرؓ بھی شامل تھے ۔ مدینہ منورہ کے معزز قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا جدی سلسلہ عمرو بن مالک بن نجار سے جا ملتا ہے۔ حضرت نبیط بن جابرؓ غزوہ احد کے موقع پر حاضر تھے وہ دل کی گہرایوں سے حق کی فتح کے آرزومند اور راہ حق میں سب کچھ قربان کر دینے کے متمنی تھے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہؐ کی محبت و فرمانبرداری سے ان کی حیات عبارت تھی۔ حضرت نبیطؓ پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہات کرم کا ان کے معاصرین کو خوب اندازہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی شادی حضرت فریعہؓ بنت ابی امامہ اسعد بن زرارہؓ سے کی تھی۔ ان کے بطن سے تولد ہونے والے فرزند کا نام عبد الملک تھا۔ حضرت اسعد بن زرارہؓ نے فریعہ اور ان کی بہنوں کی خانہ آبادی کے انتظام فرمانے کا خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معروضہ کیا تھا۔ حضرت نبیطؓ،حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت شریف کے بعد عرصہ دراز تک باحیات رہے۔ بعض محققین نے حضرت نبیطؓ کے ایک اور فرزند سلمہ کا بھی ذکر کیا ہے جن سے بعض احادیث مروی ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۶۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔