حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میرے دادا حضرت عبد المطلبؓ کو بادشاہوں اور معزز لوگوں کی پوشاک میں اٹھایا جائے گا
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۷۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۲۸؍اپریل( پریس نوٹ)بچپن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے والدہ ماجدہ حضرت سیدہ بی بی آمنہ ؑ کے ساتھ مدینہ منورہ کا سفر کیا۔ واپسی میں والدہ محترمہ سیدہ بی بی آمنہ ؑ نے وفات پائی۔ والدہ ماجدہ کا بچھڑنا سانحہ عظمیٰ تھا جن کی محبت و شفقت کے باعث والد محترم حضرت سیدنا عبد اللہ ؑ کے سایہ سے محرومی کا کبھی احساس تک نہ ہوتا تھا۔ واپسی پر شفیق دادا حضرت عبد المطلبؓ کی توجہات بڑھ گئیں۔ جد مکرم حضرت عبد المطلبؓ کی محبت ہر کمی کو پورا کرنے لگی لیکن صرف آٹھ سال کی عمر میں دادا حضرتؓ کی مفارقت کا صدمہ بھی برداشت فرمایا۔ دنیوی سرپرستوں کا اس قدر جلد جلد اٹھ جانا بجائے خود اس حکمت خداوندی کا آئینہ دار ہے کہ ما سوا اللہ کوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نگران و سر پرست نہ ہو۔وفات کے وقت حضرت عبد المطلبؓ کی عمر شریف ۹۲ سال تھی۔ اس ضمن میں دیگر روایات بھی ملتی ہیں۔ حضرت عبد المطلبؓ کو حجون کے مقام پر ان کے جد اعلیٰ حضرت قصیٔ ؑ کے پاس دفن کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میرے دادا حضرت عبد المطلبؓ کو بادشاہوں اور معزز لوگوں کی پوشاک میں اٹھایا جائے گا‘‘۔روایتوں میں آیا ہے کہ جب حضرت عبد المطلبؓ کو یقین ہو گیا کہ موت سر پر آچکی ہے تو انہوں نے اپنے تمام خاندان کو جمع کیا او رکہا کہ میں مرنے سے پہلے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم میرے مرنے کے بعد مرثئیے میں کیا کہنے والے ہو۔چنانچہ ان میں سے ہر ایک نے حضرت عبد المطلبؓ کی تعریف میں شعر پڑھے۔ حضرت امیمہ بنت عبد المطلبؓ نے جو اشعار کہے وہ کتب سیر میں محفوظ ہیں۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میری آنکھ موتیوں کے جیسے آنسو برسا رہی ہیں ان پر جو بہترین صفات اور بلند مرتبہ والے تھے۔ اور جو ہمیشہ کامیاب و کامران رہے اور بڑے دانا و بینا انسان تھے۔ جو بڑے بامروت اور بہت اونچی صفات کے مالک تھے اور بے شمار قابل فخر خصوصیتوں کے انسان تھے۔ جو اپنی قوم میں بڑے زبردست مرتبے اور عزت والے تھے اور جن کی عظمت کا ستارہ چاندی کی طرح چمکتا تھا۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ جیسا حضرت عبد المطلبؓ کی وفات کے بعد ماتم کیا گیا ایسا پہلے کسی شخص کا ماتم نہیں کیا گیا۔ ان کے انتقال پر مکہ میں کئی دن تک بازار بند رہے۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۷۵‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۲۹۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت محمد بن حاطب ؓکے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بعثت شریف کے بعد سب سے پہلے جس خوش مقدر نومولود کا نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا وہ حضرت حاطب بن حارثؓ کے فرزند ارجمند تھے جن کی ولادت حبشہ میں ہوئی۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت ام جمیل فاطمہ بنت مجللؓ تھا۔ حضرت محمدؓ بن حاطب قریش کے معزز خاندان سے تھے ان کے جد اعلیٰ حذافہ بن جمح تھے اسی وجہ سے انھیں جمحی کہا جاتا ہے ۔جب ان کے والدین حبشہ سے مدینہ منورہ آرہے تھے تو اثناء راہ ایک بار ام جمیلؓ نے پکوان کیا اور ہانڈی اٹھائی تو وہ حضرت محمدؓ بن حاطب کے بازو پر گر گئی تھی جس سے انہیں بہت تکلیف پہنچی۔ ان کو مدینہ پہنچ کر بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر کیا گیا۔ ام محمدؓ بن حاطب یعنی ام جمیلؓ نے انھیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بازوں پر اپنا لعاب پاک لگایا جس سے انھیں شفا نصیب ہوئی اس کے ساتھ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے منہ پر بھی آب دہن ڈالااور سر پر دست اقدس پھیرا۔ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کے فرزند عبد اللہؓ ان کے دودھ شریک بھائی تھے۔ حضرت محمدؓ بن حاطب کو صغر سنی میں ہی عشق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دولت بے بہا نصیب ہوئی تھی۔ اطاعت احکام الٰہی میں کامل او اتباع سنت میں یگانہ روزگار تھے۔ حضرت محمدؓ بن حاطب امیر المومنین حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؑ کے ساتھ جمل، صفین اور نہروان کے معرکوں میں شریک تھے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی وفات ۷۴ھ میں ہوئی۔ بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے کوفہ میں ۸۶ھ میں وفات پائی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۷۵‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔