بعثت شریف سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معجزا ت کا ظہور 

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کا ”۱۵۷۹“ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

 حیدرآباد۔۱۹/مئی(پریس نوٹ)بعثت شریف سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معجزا ت کا ظہور ہوتا رہا۔ ایک مرتبہ حضرت ابو طالبؓ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکہ سے باہر تشریف لے گئے۔ راستہ میں حضرت ابو طالبؓ کو پیاس کی شدت ہوئی تو انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ”بھتیجے مجھے بہت پیاس لگی ہے“۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور ایک پتھر پر اپنا پیر مبارک مارا اور کچھ کہا جس سے وہاں پر ایک عمدہ پانی کا چشمہ نکل آیا۔ حضرت ابو طالبؓ نے خوب سیر ہو کر پانی پی لیا۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر سے اس جگہ ایڑھی مبارک ماری جس سے وہ چشمہ بند ہوگیا اور جگہ پھر سے خشک ہو گئی۔ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت زبیر بن عبد المطلبؓ کے ساتھ ایک قافلہ کے ساتھ تشریف لے گئے۔ راستہ میں ایک ایسی وادی سے گزر ہوا جس میں ایک سرکش نر اونٹ رہتاتھا اور مسافروں کو پریشان کرتا تھا۔ لیکن جب اس اونٹ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا تو فوراً بیٹھ گیا اور زمین سے اپنی چھاتی رگڑ نے لگا۔ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم ایک قافلہ میں تھے اور قافلہ کا ایک ایسی وادی سے گزر ہوا جو پانی سے بھری ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قافلہ والوں سے فرمایا کہ ”میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ“۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اطمینان کے ساتھ وادی میں داخل ہو گئے اور باقی لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے پیچھے ہو گئے۔ پانی خشک ہو گیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے قافلہ کو لے کر وادی سے پار ہو گئے“۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادۂ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح۱۰ بجے ”ایوان تاج العرفاء حمیدآباد“ واقع شرفی چمن،سبزی منڈی قدیم اور۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۷۹‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۰۳‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب ؓکے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سریہ کے لئے سب سے پہلے جو جھنڈا سرفراز کیا وہ حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کے لئے تھا۔ ان کے بعد یہ اعزاز حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو ملا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو جھنڈا عطا فرما کر ان کی امارت میں ساٹھ مہاجرین شتر سواروں کو روانہ فرمایا۔ یہ لوگ بطن رابغ کی چاہ احیا پر قریش کے مقابل ہوے۔ اس دن فریقین کے درمیان تیر اندازی ہوئی لیکن تلواریں بے نیام نہ ہوئیں۔اسی سریہ میں اسلام کا پہلا تیر چلایا گیا۔ بعض اہل سیر نے سریہ عبیدہ بن حارثؓ کو سریہ حمزہ بن عبد المطلبؓ سے مقدم بتایا ہے۔ اگر ایساہو تو اسلام میں پہلاجھنڈا حضرت عبیدہؓ کو عطاہونا ظاہر ہوتاہے۔ پروفیسر سیدمحمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت عبیدہ بن حارثؓ کے دادا حضرت مطلبؓ بن عبد منافؑ بن قصیؑئ تھے۔ ان کی والدہ حضرت سخیلہ بنت خزاعی تھیں۔ انھیں ۶ فرزند اور ۴ دختران تھیں۔ حضرت عبیدہؓ بڑی عمر والے تھے اور ایک روایت کے مطابق حضرت عبیدہؓ عام الفیل سے دس سال پیشتر پیدا ہوئے۔ وہ قدیم الاسلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دار ارقم میں داخل ہونے سے قبل ہی اسلام لا چکے تھے۔ حضرت عبیدہؓ نے اپنے بھائیو ں کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کی تھی۔ مدینہ پہنچ کر ان حضرات نے عبد الرحمن بن سلمہؓ کے پاس قیام کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ کی مواخات حضرت بلالؓ اور حضرت عمیر بن الحمام انصاری ؓ سے کروائی۔ حضرت عبیدہؓ کو غزوہ بدر میں شرکت و شہادت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یوم بدرقریش کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید مشرکین کی طرف سے نکلے اور لشکر اسلام میں سے صرف ان حضرات سے مقابلہ کرنے پر اصرار کیا جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ، حضرت علی ابن ابی طالبؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو حکم دیا کہ قریشیوں کو جواب دیں۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ او ر حضرت علی ؓ نے اپنے مقابل حریفوں کا خاتمہ کر دیا اور حضرت عبیدہؓ نے اپنے مد مقابل پر سخت وار کیا اور اسے زخمی کر دیا اور دوران مقابلہ خود بھی مجروح ہوئے۔حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے حریفوں سے فراغت پاکر حضرت عبیدہؓ کی اعانت کی ان کے مقابل کا قصہ تمام کر کے حضرت عبیدہؓ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شہادت کی نوید پائی اور اپنی جان کو نذر راہ مولیٰ کر دیا۔ حضرت عبیدہؓ بن حارث کی عمر شریف بوقت شہادت ترسٹھ سال تھی۔ غزوہ بدر میں جو حضرات شریک تھے حضرت عبیدہؓ ان سبھوں میں معمر ترین تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سر کو اپنے زانوے مبارک پر رکھ لیا تھا۔اپنے آخری وقت انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ ”یا رسول اللہؐ!اگر ابو طالبؓ مجھے دیکھتے تو انھیں یقین ہو جاتا کہ میں ان کے اس قول کا زیادہ مستحق ہوں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم حضرت محمدؐ کو اس وقت تک دشمن کے حوالے نہ کریں گے جب تک ان کے ارد گرد لڑ کر مارے نہ جائیں“۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں الصفراء میں دفن کرنے کا حکم دیا۔ بہت عرصہ بعد بھی ان کی قبر سے صحابہ کرام مشک کی خوشبو پایا کرتے تھے۔ حضرت عبیدہؓ نے اپنی ساری زندگی اطاعت حق تعالیٰ، محبت و اتباع رسالت اور خدمت دین مبین میں گزار دی اور جام شہادت نوش کیا۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا”۱۵۷۹“ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔