امام عالی مقام امام علی الرضاؑ ابن موسیٰ کاظم ؑ کی حیات سرکار دوعالمؐ اور مولائے کائناتؑ کی حیات کا پرتو
اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۷۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر
حیدرآباد ۔۱۹؍مئی( پریس نوٹ)حضرت سیدناامام علی رضاؑ ابن موسیٰ کاظم ؑکی زندگی مکمل طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کی آئینہ دار تھی۔ امام رـضا ؑ پرتو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ تھے۔ حضرت امام علی رضا ابن موسیٰ ؑ آٹھویں امام ہیں۔ آپ کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ اور والدہ حضرت سیدہ ام البنین طاہرہ نجمہؓ ہیں۔ سید الشہداء امام حسین ابن علی علیہ السلام کی نسل طیب و طاہر میں آپ چھٹی پشت میں ہے۔ آپ کی ولادت ۱۱؍ذیقعدہ ۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی کنیت ’’ابو الحسن‘‘ تھی اور آپ کا لقب ’’الرضا‘‘ تھا۔مامون عباسی جو آپ کے دور میں خلیفہ تھا اس نے آپ کو خراسان آنے کی دعوت دی اور اپنا ولی عہد بنایا۔ بعض مورخین کے نزدیک مامون نے آپ کو زبردستی خراسان بلایا۔اس نے امام رضا ؑ اور مختلف مذاہب، فرقے اور مکتب فکر کے نمائندوں کے درمیان مناظرے رکھوائے۔ پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۷۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں امام عالی مقام سیدنا امام علی ابن موسیٰ رضا ؑ کے احوال شریف پر لکچرزمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں سیدنا امام علی ابن موسیٰ رضا ؑ کی سیرت مباکہ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۰۲‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ جب امام علی الرضاؑابن موسیٰ کاظم ؑ مدینہ منورہ میں تھے تو تمام علماء آپ سے ہر مسئلہ کے حل کے لئے رجوع ہوا کرتے۔ مسجد نبوی شریفؐ میں آپ تشریف فرما ہوتے اور وہیں پر آپ کے رشد و ہدایت کا سلسلہ رہتا۔ جب آپ مدینہ شریف سے خراسان کی طرف روانہ ہوئے اس وقت آپ کی عمر شریف ۵۲ برس تھی۔ ۲۰۰ھ میں آپ مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف تشریف لے گئے۔ راستہ میں جب آپ کا گذر نیشاپور سے ہوا جہاں پر بے شمار محدثین آپ کی زیارت کے لئے جمع ہوئے تھے اور درخواست کی تھی کہ’’ اے فرزند رسولؐ! سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’میرے والد امام موسیؑ ابن امام جعفر ؑنے سنا اپنے والد امام جعفرؓ ابن امام محمد ؑسے اور انھوں نے سنا اپنے والد امام محمد ؑ بن امام علی ؑ سے اور انھوں نے سنا اپنے والد امام علی ؑ ابن امام حسین ؑ سے جنھوں نے سنا اپنے والد امام حسین ابن علی ؑ سے اور جنھوں نے سنا اپنے والد مولا علی ؑ ابن ابی طالب ؑ سے جنھوں نے سنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جنھوں نے سنا جبرئیل ؑ سے جنھوں نے سنا اللہ جل جلالہ سبحانہ و تعالیٰ سے کہ ’لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے۔ تو جوکوئی بھی میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوا‘‘‘۔ حضرت امام علی موسی رضا ؑ کے مناظرے عیسائی، یہودی، زرتشت اور مختلف مذہبی خیالات کے علماء کے ساتھ ہوے اور ہر وقت آپ نے ہر ایک کو لاجواب کر دیا اور دین حق اسلام کے موقف کو اپنی حجت سے مضبوط و محفوظ کیا۔ مشہور صوفی حضرت معروف کرخیؒ آپ کی غلامی اور دربانی کیا کرتے تھے۔ اما م علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کی شہادت ایک روایت کے مطابق صفر ۲۰۳ھ میں ہوئی۔ آپ کو زہر دے کر شہید کیا گیا تھا۔ آپ کی مزار اقدس مشہد شریف میں موجود ہے جو کروڑوں لوگوں کی ہر سال زیارت کا مرکز ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۷۸‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ جناب محمد مظہر خسرو حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔