کفیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابو طالبؑ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نشانی

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۷۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۱۲؍مئی( پریس نوٹ)اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود اقدس سے بہت ساری رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائی۔ ایک دفعہ قریش سخت خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حضرت ابو طالبؓ کے ہاں کفالت کا زمانہ تھا۔کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ لات ، عزیٰ اور منات (جو قریش کے بت تھے) پر بھروسہ کرو۔ لیکن ایک ضعیف شخص نے کہا کہ ’’تم حق اور سچائی سے کس طرح بھاگ رہے ہو حالانکہ تم میں حضرت ابراہیم ؑ کی نشانی اور اسماعیل ؑ کی اولاد موجود ہے‘‘۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہاری مراد حضرت ابو طالبؓ ہیں؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ سارے لوگ حضرت ابو طالبؓ کے گھر چلے۔ جب دروازہ پر دستک دی گئی تو ایک خوبصورت شخص نے دروازہ کھولا۔ لوگو ں نے ان سے کہا کہ ’’اے ابو طالبؓ! وادی میں قحط پڑ رہا ہے اور بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ اس لئے آئو اور ہمارے لئے بارش کی دعا کرو‘‘۔ حضرت ابو طالبؓ اندر گئے اور ایک بچے(حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ باہر آے تو ایسا لگتا تھا کہ اچانک اندھیرے میں سور ج نکل آیا ہو۔ حضرت ابوطالب  ؓ حضور اقدس ؐکا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر وہ کعبہ کے پاس تشریف لے گئے اور دعا کی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی انگلی شریف پکڑ کر طواف کرنے لگے۔ جہاں کچھ دیر پہلے بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا اچانک ہر طرف سے بادل گھر گھر کر آنے لگے اور اتنی زبردست بارش ہوئی کہ وادی پانی سے بھر گئی۔ حضرت ابو طالبؓ کا ایک شعر اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’بادل ان ہی کے چہرہ سے پانی حاصل کرتے ہیں جو یتیموں کا ٹھکانہ اور غریبوں اور مسکینوں کا سہارا ہیں‘‘۔پروفسیر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۷۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں ان حقائق کا اظہار کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۰۱‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت ثمامہ بن عدی  ؓکے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ثمامہ بن عدیؓ ان خوش مقدر ہستیوں میں شامل ہیں جنھیں دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور میں شرف اسلام کا اعزاز حاصل ہوا۔ انھو ں نے تابہ ہجرت ان تمام حالات کا سامنا کیا جو کفار قریش کے مظالم اور زیادتیوں کے باعث مسلمانوں کو پیش آئے۔ ایمان پر استقامت  اور راہ حق میں ہر طرح کی قربانیاں دینا سابقون الاولون کا خاصہ رہا چنانچہ اس باب میں حضرت ثمامہ بن عدیؓ کا اسم مبارک بھی نمایاں رہا۔ عشق الٰہی کی دولت سے مالا مال اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انوار سے سرفراز حضرت ثمامہ بن عدیؓ کی پوری زندگی اطاعت حق اور اتباع رسولؐ سے عبارت تھی۔ حضرت ثمامہ بن عدیؓ کا نسبی تعلق قریش سے تھا البتہ وہ کس شاخ سے تعلق رکھتے تھے اس بارے میں ارباب سیر نے صراحت نہیں فرمائی ہے۔ حضرت ثمامہ بن عدیؓ اپنے قبیلہ میں بڑے با اثر اور اعتبار والے تھے اسلام نے ان کے وقار اور رسوخ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ثمامہؓ بن عدی شجاعت و بہادری، عزم و حوصلہ مندی اور فنون حرب سے بخوبی واقف تھے ان کی یہ صلاحیتیں تمام تر جہاد راہ حق کے لئے مختص تھیں ہجرت کے بعد عزوہ بدر میں شرکت اور حمایت حق میں ان کی معرکہ آرائی اس کی دلیل ہے۔ حضرت ثمامہ بن عدیؓ کوصنعاء پر حاکم بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ کتب سیر میں حضرت ثمامہ بن عدیؓ کی سنہ وفات کے متعلق تفصیلات نہیں ملتی ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۷۷‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔