سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ۱۲ برس کی عمر میں اپنے عم گرامی حضرت ابو طالبؓ کے ساتھ شام کا سفر

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا ( آئی ہرک) کا ’’۱۵۸۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس۔پروفیسرسید محمدحسیب الدین حمیدی کا لکچر

حیدرآباد ۔۳۰؍جون( پریس نوٹ) قریش کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ حضرت ابو طالبؓ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔جب حضرت ابو طالبؓ تجارت کے لئے سفر شام کی تیاری کر رہے تھے تو حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے ساتھ جانے کا اشتیاق ظاہر کیا جس پر حضرت ابو طالبؓ آمادہ ہو گئے۔ اس وقت حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر شریف بارہ سال تھی۔شہر بصریٰ میں ایک راہب بحیرا اپنے صومعہ میں رہا کرتا تھا یہ علم نصرانیت سے پورا واقف تھا۔ جب یہ قافلہ شہر بصریٰ میں اس صومعہ کے قریب اترا تو بحیرا نے دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا قافلہ کے ایک بچہ(حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )پر سایہ کیا ہوا ہے۔ پھر جب حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم درخت کے نیچے جلوہ افروز ہوئے تو بحیرا نے دیکھا کہ وہ ابر حضورانورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر مبارک پر مثل چھتری کے قائم ہو گیا اور درخت کی سب ٹہنیاں حضورؐ پر سایہ کرنے کے واسطے مائل ہو گئیں۔ بحیرا نے قریش کے تمام قافلہ کو دعوت کہلا بھیجا۔ جب حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعوت میں تشریف لائے تو بحیرا ،حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بار بار دیکھتا تھا اور آپ کے اعضائی جسم کو بغور ملاحظہ کرتا تھا اور ان علامات کے مطابق پاتا تھا جو اس کے پاس لکھی ہوئی تھیں۔ جب لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوئے اور چلنے لگے تو بحیرا نے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ اے صاحبزادے! میں تم سے بواسطہ لات اور عزیٰ (قریش کے بت) کے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں تم مجھ کو اس کا جواب دو۔ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو لات اور عزیٰ کا واسطہ نہ دو کیوں کہ ان سے زیادہ نفرت کی چیز میرے لئے کوئی نہیں۔ تب بحیرا نے اللہ کا واسطہ دیا اور سوالات کئے اور ایسے جواب پائے جیسے اس کے پاس لکھے ہوئے تھے۔ پھر اس نے خاتم نبوت کی زیارت کی جو حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان ہے۔ بحیرا نے حضرت ابوطالبؓ کی طرف متوجہ ہو کرکہا کہ اس بچہ(حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو واپس گھر لے جائو اور یہودیوں سے ان کی حفاظت کرو۔ اس نے کہا کہ اگر یہودی بھی اسی طرح انہیں پہچان لیں جیسا کہ اس نے پہچانا ہے تو ان کی عداوت کی بناء پر وہ حضور ؐ کو نقصان پہنچانے پرآمادہ ہو جائیں گے۔ ان حقائق کا اظہار پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جانشین شہزادئہ امام علی موسیٰ رضاؑڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی  ؒ نے آج صبح ۱۰ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم اور ۱۲ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میںاسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۵۸۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں سیرت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکچرمیں کیا۔پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۳۰۸‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا اورایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول مقبولؐ حضرت ابو رحم غفاری ؓکے احوال شریف پر لکچر دئیے۔اپنے لکچر کے دوسرے حصہ میں پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی نے بتایا کہ حضرت ابو رحم غفاریؓ کا نام کلثوم تھا اور ان کے والد حصین بن خالد تھے جن کا قبیلہ غفار سے تعلق تھا۔ حضرت ابو رحم غفاریؓ ما بعد ہجرت مشرف بہ اسلام ہونے والے اصحاب میں ممتاز حیثیت کے حامل اور مقرب بارگاہ رسالت پناہیؐ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں متعدد مرتبہ کئی طرح کے ذمہ دار کام تفویض فرماے اور ہر کام کو انھوں نے نہایت حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ یہاں تک کہ وہ دو مرتبہ مدینہ منورہ میں نائب مقرر فرمائے گئے، ایک بار جب کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمرۃ القضاء کا عزم فرمایا اور دوسری مرتبہ جب کہ فتح مکہ کے لئے روانگی عمل میں آئی۔ یہ بات بجائے خود ان کی کتاب حیات کا روشن ترین باب ہے۔ حضرت ابو رحم غفاریؓ بڑی خوبیوں اور کمالات کے حامل تھے انتظامی صلاحیتوں، بردباری، اخلاقی محاسن کے ساتھ ساتھ فن حرب میں خاص درک تھا۔خود بھی فطری طور پر دلیر تھے اور مہارت و کمال کے باعث میدان جہاد میں حیرت انگیز مظاہرہ جراء ت کیا کرتے تھے۔ غزوہ احد میں حضرت ابو رحم غفاریؓ کے سینہ پر تیر لگنے کے سبب گہرازخم آگیا تھا وہ جب زخمی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے زخم پر لگانے کے لئے اپنا لعاب دہن مبارک عطا فرمایا جس کے اعجاز و اثر سے ان کا زخم اچھا ہو گیا۔ خیبر کے معرکہ میں حضرت ابو رحم غفاریؓ کی خدمات نمایاں تھیں۔ یہی سبب ہے کہ انھیں خیبر کی غنیمت میں دو گنازیادہ حصہ سرفراز ہوا۔ تمام غزات و مشاہدات میں بجز عمرۃ القضاء و فتح مکہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل کیا۔ بیعت الرضوان کی بھی سعادت پائی۔ محاصرہ طائف سے مرجعت کے وقت اور تبوک سے واپسی کے موقع پر اپنی اونٹنی کی بے ربط چال اور بے احتیاطی کے باعث زحمت دہی کا ایک واقعہ انھیں بہت پریشان کر گیا تاہم دربار رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عفو و کرم کی نوید و انعام پر بے حد مسرور و شاداں ہوئے۔ تبوک کے معرکہ میں حسب ارشاد اپنے قبیلہ والوں کو دشمنوں کے خلاف مقابلہ کے لئے لائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیضان صحبت او دربار رسالت پناہیؐ میں ہمہ وقت حاضری نے انہیں علوم و حکمت کے جواہر سے نواز دیا تھا حضرت ابو رحم غفاریؓ زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری کے ساتھ ساتھ علم و فضل میں بھی نمایاں تھے۔ انھیں مدینہ منورہ میں سکونت کا اعزاز حاصل رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہمیشہ حاضری کی عزت نصیب ہوئی ۔ ان کی وفات کی تفصیلات کے بیان سے ارباب سیر خاموش ہیں۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام حضرت تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا۔ ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۵۸۴‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔ الحاج محمد یوسف حمیدی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔